سفیان بن عیینہ نے ہمیں سعید بن حسان سے حدیث بیان کی، انہوں نے عروہ بن عیاض سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، اور کہا: میرے پاس میری ایک لونڈی ہے، میں اس سے عزل کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک یہ (عزل) ایسی کسی چیز کو نہیں روک سکتا جس کا اللہ نے ارادہ کیا ہو۔" کہا: وہ شخص (دوبارہ) حاضرِ خدمت ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! وہ لونڈی جس کا میں نے آپ سے ذکر کیا تھا، حاملہ ہو گئی ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں۔ (میں جو کہتا ہوں اللہ کی طرف سے کہتا ہوں
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی، میری ایک لونڈی ہے جو ہماری خدمت گار بھی ہے اور ہمارے لیے پانی بھی فراہم کرتی ہے اور میں اس سے مباشرت کرتا ہوں، اور یہ نہیں چاہتا کہ اسے حمل قرار پائے، (کیونکہ حمل اور وضع حمل کے نتیجہ میں وہ سب کام کاج نہیں کر سکے گی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو چاہتا ہے تو عزل کر کے دیکھ لے، کیونکہ اس کے لیے جو مقدر ہے وہ تو ہو کر ہی رہے گا۔“ کچھ دن ٹھہرنے کے بعد وہ آدمی آیا اور کہنے لگا، باندی تو حاملہ ہو گئی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں بتا چکا ہوں، اس کو پیدا ہو کر رہے گا، جو اس کے لیے مقدر ہو چکا ہے۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3556
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: وَسَانِيَتُنَا: اَلسَّانِيَةُ: وہ اونٹ جس سے پانی کھینچا جاتا ہے، چونکہ وہ کنویں سے پانی لاتی تھی اس لیے اس کو سانیہ کا نام دیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3556
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث89
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: انصار کا ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میرے پاس ایک لونڈی ہے میں اس سے عزل کرتا ہوں ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اس کے مقدر میں ہو گا وہ اس کے پاس آ کر رہے گا“، کچھ دنوں کے بعد وہ آدمی حاضر ہوا اور کہا: لونڈی حاملہ ہو گئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی تقدیر میں جو ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے“۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 89]
اردو حاشہ: (1) تدبیر کے باوجود تقدیر غالب آ جاتی ہے لیکن یہ چیز تدبیر کے استعمال میں رکاوٹ نہیں۔ انسان کو اپنی کوشش کرنی چاہیے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔
(2) عزل کا مطلب یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی یا لونڈی سے مجامعت میں مشغول ہو، جب محسوس کرے کہ انزال قریب ہے تو پیچھے ہٹ جائے تاکہ انزال باہر ہو اور حمل قرار نہ پائے۔ یہ گویا اس دور کا خاندانی منصوبہ بندی کا طریقہ تھا۔
(3) لونڈی سے عزل جائز ہے کیونکہ اس کا امید سے ہونا، مالک کی خدمت میں رکاوٹ کا باعث ہوتا ہے اور لونڈی رکھنے کا بڑا مقصد گھر کا کام کاج اور مالک کی خدمت ہے، البتہ آزاد عورت (بیوی) سے عزل کرنا اس کی اجازت سے مشروط ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 89
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1927
´عزل کا بیان۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عزل کیا کرتے تھے، اور قرآن اترا کرتا تھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1927]
اردو حاشہ: فائده: نزول وحی کے زمانے میں اس کی صریح ممانعت نازل نہیں ہوئی، اس سے اس عمل کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1927
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1136
´عزل کا بیان۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ عزل ۱؎ کرتے تھے، تو یہودیوں نے کہا: قبر میں زندہ دفن کرنے کی یہ ایک چھوٹی صورت ہے۔ آپ نے فرمایا: ”یہودیوں نے جھوٹ کہا۔ اللہ جب اسے پیدا کرنا چاہے گا تو اسے کوئی روک نہیں سکے گا“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1136]
اردو حاشہ: وضاخت:
1؎: عزل یہ ہے کہ جماع کے وقت انزال قریب ہوتو آدمی اپناعضوتناسل شرمگاہ سے باہر نکال کر منی باہر نکال دے تاکہ عورت حاملہ نہ ہو۔
2؎: اس حدیث میں صرف اس بات کا بیان ہے کہ یہودیوں کا یہ خیال غلط ہے کیوں کہ عزل کے باوجود جس نفس کی اس مرد و عورت سے تخلیق اللہ کو مقصود ہوتی ہے اس کی تخلیق ہوہی جاتی ہے، جیسا کہ ایک صحابی نے لونڈی سے عزل کیا اس کے باوجود حمل ٹھہر گیا۔ اس لیے یہ ”مودودۃ صغریٰ“ نہیں ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1136
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1294
1294- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ عزل کرلیا کرتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود تھے اور قرآن نازل ہوتا رہا (لیکن ہمیں اس عمل سے منع نہیں کیا گیا)۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1294]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عزل کرنا درست ہے، یعنی شریعت اسلامیہ نے اس کی اجازت دی ہے (یعنی بیوی سے صحبت کرنا اور منی باہر خارج کرنا) اس حدیث سے تقریری حدیث کا حجت ہونا ثابت ہوتا ہے، جو کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیا گیا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا ہو، وہ تقریری حدیث ہے، اگر کسی تقریری حدیث میں ابہام ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تصحیح فرما دیتے، جبکہ اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1292
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1295
1295- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! میری ایک کنیز ہے میں اس سے عزل کرلیتا ہوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یہ عمل اس چیز کو واپس نہیں کر سکتا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ دے دیا ہو۔“ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: وہ شخص چلا گیا کچھ عرصے کے بعد وہ دوبارہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! مجھے یہ پتہ چلا ہے، وہ کنیز حاملہ ہوگئی ہے نبی اکرم صلی اللہ علی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1295]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کوئی لاکھ عزل کرتا رہے، جب اللہ فیصلہ کر دیں، جس نطفے میں اللہ نے اولاد رکھی ہو، وہ استعمال ہو ہی جاتا ہے، اور اولاد دینا کسی کے بس کی بات نہیں ہے، اور نہ ہی اولاد لینا، یہ کام انده صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1293