محمد بن حاتم بن میمون نے مجھے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں بہز نے حدیث سنائی، نیز محمد بن رافع نے مجھے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابونضر ہاشم بن قاسم نے حدیث سنائی، ان دونوں (بہز اور ابونضر) نے کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے ثابت سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ یہ بہز کی حدیث ہے۔ کہا: جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی عدت گزری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "اِن (زینب رضی اللہ عنہا) کے سامنے ان کی میرے ساتھ شادی کا ذکر کرو۔"کہا: تو حضرت زید رضی اللہ عنہ چلے حتیٰ کہ ان کے پاس پہنچے تو وہ اپنے آٹے میں خمیر ملا رہی تھیں، کہا: جب میں نے ان کو دیکھا تو میرے دل میں ان کی عظمت بیٹھ گئی حتیٰ کہ میں ان کی طرف نظر بھی نہ اٹھا سکتا تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (کے ساتھ شادی) کا ذکر کیا تھا، میں نے ان کی طرف اپنی پیٹھ کی اور ایڑیوں کے بل مڑا اور کہا: زینب! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارا ذکر کرتے ہوئے پیغام بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا: میں کچھ کرنے والی نہیں یہاں تک کہ اپنے رب سے مشورہ (استخارہ) کر لوں، اور وہ اٹھ کر اپنی نماز کی جگہ کی طرف چلی گئیں اور (ادھر) قرآن نازل ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر اجازت لیے ان کے پاس تشریف لے آئے۔ (سلیمان بن مغیرہ نے) کہا: (انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے اپنے آپ سمیت سب لوگوں کو دیکھا کہ جب دن کا اجالا پھیل گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں روٹی اور گوشت کھلایا۔ اس کے بعد (اکثر) لوگ نکل گئے، چند باقی رہ گئے وہ کھانے کے بعد (آپ کے) گھر میں ہی باتیں کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (وہاں سے) نکلے، میں بھی آپ کے پیچھے ہو لیا، آپ یکے بعد دیگرے اپنی ازواج کے حجروں کی طرف جا کر انہیں سلام کہنے لگے۔ وہ (جواب دے کر) کہتیں: اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی (نئی) اہلیہ کو کیسا پایا؟ (انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نہیں جانتا میں نے آپ کو بتایا کہ لوگ جا چکے ہیں یا آپ نے مجھے بتایا۔ پھر آپ چل پڑے حتیٰ کہ گھر میں داخل ہو گئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ داخل ہونے لگا تو آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ لٹکا دیا اور (اس وقت) حجاب (کا حکم) نازل ہوا، کہا: اور لوگوں کو (اس مناسبت سے) جو نصیحت کی جانی تھی کر دی گئی۔ ابن رافع نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا: "اے ایمان والو! تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو مگر یہ کہ تمہیں کھانے کے لیے (آنے کی) اجازت دی جائے، اس حال میں (آؤ) کہ اس کے پکنے کا انتظار نہ کر رہے ہو (کھانے کے وقت آؤ پہلے نہ آؤ) " سے لے کر اس فرمان تک: "اور اللہ کا حق سے شرم نہیں کرتا
بہز رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کے مطابق حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عدت پوری ہو گئی تو آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم نے (اس کے سابقہ خاوند) حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ”میری طرف سے اسے پیغام دو۔“ تو حضرت زید گئے۔ جب اس کے پاس پہنچے تو وہ اپنے آٹے کا خمیر اٹھا رہی تھیں (گوندھنے کے بعد بہتر ہونے کے لیے رکھ چھوڑا تھا) حضرت زید بیان کرتے ہیں تو جب میں نے اسے دیکھا تو میرے دل میں ان کی قدر و منزلت کی بڑائی بیٹھ گئی (کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ بننے والی تھیں) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسے منگنی کا پیغام دینے کی بنا پر میں اسے دیکھ نہیں سکتا تھا (ہیبت و جلال کی بنا پر) میں نے اس کی طرف اپنی پشت کر دی اور اپنی ایڑیوں پر لوٹ کر عرض کیا۔ اے زینب! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے پیغام بھیجا ہے۔ اس نے جواب دیا۔ جب تک میں اپنے رب سے مشورہ نہ کر لوں (استخارہ نہ کر لوں) میں کوئی جواب نہیں دوں گی۔ وہ اپنی سجدہ گاہ میں (استخارہ کے لیے) کھڑی ہوئیں اور قرآنِ مجید کا نزول ہوا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلا اجازت اس کے پاس چلے گئے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے ساتھیوں کو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن چڑھے ہمیں روٹیاں اور گوشت کھلایا، لوگ (فارغ ہو کر) گھر سے نکل گئے اور کچھ آدمی کھانے کے بعد گھر میں باتوں میں لگ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل پڑا، آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم یکے بعد دیگرے اپنی بیویوں کے کمروں میں جانے لگے۔ انہیں سلام کہتے اور وہ پوچھتیں، اے اللہ کے رسول صلی ٰاللہ علیہ وسلم! آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی کو کیسا پایا؟ حضرت انس رضی تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں مجھے معلوم نہیں میں نے آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ لوگ چلے گئے ہیں یا آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم نے مجھے خبر دی، پھر آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم چلے حتی کہ گھر میں داخل ہو گئے اور میں بھی آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم کے ساتھ داخل ہونے لگا تو آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا اور پردہ کا حکم نازل ہو گیا۔ اور لوگوں کو اس کے مناسب نصیحت کی گئی۔ ابن رافع کی حدیث میں آیت کا تذکرہ ہے کہ (نبی صلی ٰاللہ علیہ وسلم کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہو، الا یہ کہ کھانے کے لیے بلایا جائے۔ لیکن اس کے پکنے کے انتظار میں نہ بیٹھ رہو۔۔۔ اور اللہ حق کے بیان میں نہیں شرماتا۔)
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3502
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کی رسم کو ایک آزاد کردہ غلام کسی شریف زادی اور اعلیٰ خاندان کی خاتون کا کفونہیں ہو سکتا، چاہے وہ کس قدر خوبیوں اور صلاحتیوں کا مالک ہو اور دین و تقوی کے بلند معیار پر فائز ہو لوگوں کے اس تصورکو توڑنے کے لیے اپنی پھوپھی زاد حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو خاندان بنو اسد سے تعلق رکھتی تھی ان کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کردیا، لیکن یہ معاشرتی اصلاح کا پہلا واقعہ تھا۔ اس لیے منافق مرد اور عورتوں نے فتنہ اٹھایا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک معزز گھرانے کی حسین وجمیل اور ذہین و فطین شریف خاتون کا دامن اپنے ایک آزادکردہ غلام کے ساتھ باندھ دیا ہے، اس طرح حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا دونوں کو ایک دوسرے سے بدگمان کرنے کی کوشش کی۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو محسوس ہوا کہ زینب اپنی نسبی شرافت کی بنا پر اپنے آپ کو مجھ سے فائق اور بر تر سمجھتی ہیں۔ اس وجہ سے میرے ساتھ نکاح کو ناپسند کرتی ہیں اور میری اطاعت نہیں کرتیں اور حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مزاج میں بھی کچھ تمکنت اور تیزی تھی جس کو حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حساس اور خود دارطبیعت نے زیادہ محسوس کیا اور طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فیصلہ کو ایک دوسری جاہلی رسم کے خاتمہ کا ذریعہ بنانا چاہا جس کو قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ (پس جب زید نے اپنی ضرورت و حاجت پوری کر لی۔ (اور اپنا رشتہ کاٹ لیا، عدت ختم ہو گئی) تو ہم نے اس کو تم سے بیاہ دیا۔ کہ مومنوں کے لیے ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملے میں جب کہ وہ ان سے اپنا تعلق بالکل کاٹ لیں کوئی تنگی باقی نہ رہے اور اللہ کا فیصلہ شدنی (اٹل) تھا۔ )(الاحزاب37) اس طرح اللہ کے فرمان کے مطابق 5 ہجری کے آغاز یا اختتام پر آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کر لیا۔ چونکہ یہ نکاح اللہ کے فرمان اور حکم پر ہوا۔ اس کی صورت عام نکاح والی نہیں تھی کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے استخارہ کا انتظار کیا جاتا اور اس کے اولیاء کی مرضی معلوم کی جاتی۔ اس لیے اس کو ﴿زَوَّجْنَٰكَهَا﴾(ہم نے اس سے آپ کی شادی کردی) سے تعبیر کیا ہے، اور حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی فخر یہ طور پر فرماتی تھیں کہ اور بیویوں کے نکاح ان کے ولیوں نے کیے اور میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے کیا، میرے نکاح کے متعلق اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ حکم دیا اور دوسری ازواج کے نکاح کے لیے خصوصی حکم نازل نہیں ہوا۔ اس لیے اس کا یہ معنی لینا ضروری نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی نکاح کر دیا۔ اس کے لیے ایجاب وقبول اور گواہوں کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ بلکہ آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم کا یہ نکاح شرعی قواعد اور ضوابط کے مطابق ہوا۔ اور اس نکاح کے ولیمہ میں پردے کا حکم نازل ہوا۔ اور اس میں بتایا گیا جب کسی تقریب کے سلسلہ میں تمھیں کھانے کی دعوت دی جائے تو جاؤ اور بلا اجازت و دعوت ناخواندہ مہمان بن کر خود ہی نہ پہنچ جاؤ۔ اور کھانے کے انتظار میں پکنے سے پہلے نہ جاؤ۔ جب بلایا جائے تو وقت کے وقت داخل ہو اور جب کھا چکو تو وہاں سے منتشر ہو جاؤ باتوں میں لگے ہوئے وہاں بیٹھے نہ رہو۔