مروان بن معاویہ فزاری نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں یزید بن کیسان نے ابوحازم سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا اور کہا: میں نے انصار کی ایک عورت سے نکاح کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: "کیا تم نے اسے دیکھا ہے؟ کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ ہے۔" اس نے جواب دیا: میں نے اسے دیکھا ہے۔ آپ نے پوچھا: "کتنے مہر پر تم نے اِس سے نکاح کیا ہے؟" اس نے جواب دیا: چار اوقیہ پر۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "چار اوقیہ چاندی پر؟ گویا تم اس پہاڑ کے پہلو سے چاندی تراشتے ہو! تمہیں دینے کے لیے ہمارے پاس کچھ موجود نہیں، البتہ جلد ہی ہم تمہیں ایک لشکر میں بھیج دیں گے تمہیں اس سے (غنیمت کا حصہ) مل جائے گا۔" کہا: اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبس کی جانب ایک لشکر روانہ کیا (تو) اس آدمی کو بھی اس میں بھیج دیا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا، میں نے ایک انصاری عورت کو شادی کا پیغام دیا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”کیا تو نے اسے دیکھ لیا ہے؟ کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ ہے۔“ اس نے کہا، میں دیکھ چکا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”اس کا کتنا مہر رکھا ہے؟“ اس نے عرض کیا، چار اوقیہ چاندی پر (نکاح کیا ہے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (تعجب سے) فرمایا: ”چار اوقیہ پر؟ گویا تم اس پہاڑ کے پہلو یا کونہ سے چاندی تراش لیتے ہو، ہمارے پاس تجھے دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، لیکن ممکن ہے، ہم تمہیں کسی لشکر میں بھیج دیں، تجھے اس سے کچھ مل جائے گا،“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبس کی طرف ایک پارٹی بھیجی اور اس آدمی کو بھی اس میں بھیج دیا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3486
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے ارشادات کا مقصد یہ ہے کہ نکاح اور شادی کا معاملہ بہت اہم ہے، ساری عمر کی رفاقت کے لیے ایک فیصلہ اور معاہدہ ہوتا ہے، اس لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ یہ معاملہ ناواقفی و بےخبری کے ساتھ اندھیرے میں ہو اس کو واقفیت اور بصیرت کے ساتھ ہونا چاہیے، اس کی ایک صورت تو یہ ہے اگر پہلے سے عزیز برادری اور شناسائی نہیں ہے (کیونکہ خاندانی عورتوں کو انسان عام طور پر جانتا پہنچانتا ہوتاہے) تو اپنی عورتوں کے ذریعہ صحیح معلومات حاصل کرے یا اس پر خود ایسے طریقہ سے نظر ڈال لے کہ اس کو پتہ بھی نہ چل سکے، لیکن اس کام کو نظر بازی کا ذریعہ نہ بنائے، عورت کا چہرہ اور ہاتھ چونکہ عورت نہیں ہیں گھر میں عورت ان کو ننگا رکھتی ہے صرف باہر نکلتے وقت یا گھر میں غیر محرم کی آمد کے وقت ہی اس کا پردہ کرتی ہے اس لیے منگیتر کے لیے ایک دفعہ دیکھنے کی آئمہ اربعہ کے نزدیک اس کی اجازت ہے، بلکہ بہتر ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری عورتوں کی آنکھوں میں عیب کی نشان دہی فرمائی ہے ثابت ہوتا ہے ضرورت کے وقت جذبہ خیر خواہی سے کسی عیب کی نشان دہی کی جا سکتی۔ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا گویا کہ تم پہاڑسے کچھ تراش لیتے یا کاٹ لیتے ہو اس سے معلوم ہوتا ہے مہر مقرر کرتے وقت اپنی حیثیت اور اپنی آمدن کا لحاظ رکھنا چاہیے کیونکہ مہر کی ادائیگی ضروری ہے، اتنا مہر مقرر نہیں کرنا چاہیے کہ انسان دے ہی نہ سکے یا پھرمعاف کروانے کے لیے حیلے بہانے کرے، اور یہ بھی درست نہیں ہے کہ انسان صاحب حیثیت ہو شادی پر لاکھوں خرچ کرے اور مہر معمولی باندھے، افراط و تفریط دونوں ہی شریعت کی منشاء کے خلاف ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوا تمام ازواج کا مہر پانچ سو درہم باندھا تھا، ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہر نجاشی نے ادا کیا تھا اس لیے وہ زیادہ تھا، مستدرک حاکم کی روایت کے مطابق چار ہزار دینار تھا اور اس کو ترجیح دی گئی ہے اگرچہ سنن کی روایت میں چار ہزار درہم ہے۔