لیث نے نافع سے روایت کی، انھوں نے ابرا ہیم بن عبد اللہ بن معبد (بن عباس) سے روایت کی، (کہا:) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: ایک عورت بیمار ہو گئ اس نے کہا: اگر اللہ نے مجھے شفا دی تو میں بیت المقدس میں جا کر ضرور نماز ادا کروں گی۔وہ صحت یا ب ہو گئی، پھر سفر کے ارادے سے تیاری کی (سفر سے پہلے) وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں سلام کہنے کے لیے حا ضر ہوئی اور انھیں یہ سب بتا یا تو حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے اس سے کہا: بیٹھ جاؤ اور جو (زادراہ) تم نے تیار کیا ہے وہ کھا لو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں نماز پڑھ لو۔بلا شبہ!میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فر ما رہے تھے: اس (مسجد) میں ایک نماز پڑھنا اس کے سوا (باقی) تمام مساجد میں ایک ہزار نمازیں ادا کر نے سے افضل ہے سوائے مسجد کعبہ کے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت، ایک بیماری میں مبتلا ہو گئی، تو اس نے کہا، اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا بخش دی تو میں جا کر مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھوں گی، وہ شفا یاب ہو گئی، پھر نکلنے کی تیاری کی تو سلام عرض کرنے کے لیے حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کی خدمت میں حاضر ہوئی، اور انہیں اپنے ارادہ سے آگاہ کیا، تو حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا، بیٹھ رہو اور جو کھانا (سفر کے لیے) تیار کیا ہے کھا لو، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں نماز پڑھ لو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اس میں نماز باقی مساجد سے ہزار نماز سے افضل ہے، سوائے مسجد کعبہ کے۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3383
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ان حدیثوں میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا ثواب عام مساجد سے ایک ہزار گنا زیادہ ہے، لیکن مسجد حرام کو مستثنیٰ قراردیا گیا ہے، ظاہر ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد حرام سے اس قدر زیادہ ثواب نہیں ہے، اوردوسری صحیح احادیث میں تصریح موجودہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری مسجد میں نمازمسجد حرام کوچھوڑ کر باقی مساجد سے ایک ہزار گنا افضل ہے اورمسجد حرام میں اس کو چھوڑ کر ایک لاکھ گنا افضل ہے۔ (عمدۃ القاری ج3ص 685 حدیث ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تحت) اور حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجد حرام میں نماز ایک لاکھ نماز کے برابر ہےاور میری مسجد میں نماز ایک ہزار نماز کے برابرہے، اور بیت المقدس میں پانچ سونماز کے برابرہے۔ “(عینی ج3 ص686) امام نجار نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے، اورصحیح ابن حبان کی روایت ہے جو صحیح ابن خذیمہ مسند احمد اوردوسری کتب میں بھی موجود ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میر ی اس مسجد میں نماز مسجد حرام کے علاوہ مساجد سے ایک ہزار نمازوں سے افضل ہے، اور مسجد حرام میں نماز میری اس مسجد سے سو گنا افضل ہے۔ (الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان ج4 ص 499 الدکتور شعیب ارناؤوط وغیرہ) اب ان روایات سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ عام مساجد سے مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا ثواب ہزار گنا زیادہ ہےاور مسجد حرام میں نماز پڑھنا ایک لاکھ نماز کا ثواب رکھتا ہے جو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے سو گنا زیادہ ہے، اوران حدیثوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ اور بعض معاصرین نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ بالا روایت کو علامہ عینی کے حوالہ سے تحریف کرتے ہوئے یوں لکھا ہے: (صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ) (میری مسجد میں نماز پڑھنا مسجدحرام کے علاوہ مساجد سے ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے اور مسجد حرام کا ثواب بھی عام مساجد سے ایک لاکھ نمازوں سے زیادہ ہے) اس طرح دونوں حدیثوں میں تعارض ثابت کر دیا، حالانکہ عمدۃ القاری میں: (صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ) (ج 3 ص 685 فتح الملہم ج3 ص417) میں بھی یہی الفاظ ہیں، مزید برآں ان صحیح احادیث کو چھوڑ کرقیاسی گھوڑے چلاتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے لیے مکہ کے مقابلہ میں (ضِعْفَىْ مَا جَعَلْتَ بِمَكَّةَ) کی دعا فرمائی ہے۔ تومعنی ہوا، مدینہ میں مکہ سے چوگنی برکتیں نازل فرما، حالانکہ دوسری روایات میں لفظ مِثْلَیْ آیا ہے، یعنی دوچند، اب اس پر یہ عمارت استوار کی، کہ مسجد حرام میں پڑھی ہوئی نمازوں کا اجر اس سے چار گنا زیادہ ہو گا تو کیا کوئی مسلمان بقائمی ہوش وحواس صحیح احادیث کے مقابلہ میں، یہ طرز اختیار کر سکتا ہے کہ حدیثوں میں تحریف کرے اور صحیح احادیث کے مقابلہ میں قیاسی گھوڑے دوڑائے) ۔