الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ
حج کے احکام و مسائل
60. باب وُجُوبِ الْمَبِيتِ بِمِنًى لَيَالِيَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ وَالتَّرْخِيصِ فِي تَرْكِهِ لأَهْلِ السِّقَايَةِ:
60. باب: ایام تشریق کی راتیں منی میں گزارنا واجب ہیں، اور پانی پلانے والوں کو اس کو چھوڑنے کی رخصت۔
حدیث نمبر: 3179
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ الضَّرِيرُ ، حدثنا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حدثنا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْدَ الْكَعْبَةِ، فَأَتَاهُ أَعْرَابِيٌّ، فقَالَ: مَا لِي أَرَى بَنِي عَمِّكُمْ يَسْقُونَ الْعَسَلَ وَاللَّبَنَ، وَأَنْتُمْ تَسْقُونَ النَّبِيذَ؟ أَمِنْ حَاجَةٍ بِكُمْ، أَمْ مِنْ بُخْلٍ؟ فقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : " الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا بِنَا مِنْ حَاجَةٍ، وَلَا بُخْلٍ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَخَلْفَهُ أُسَامَةُ، فَاسْتَسْقَى فَأَتَيْنَاهُ بِإِنَاءٍ مِنْ نَبِيذٍ، فَشَرِبَ وَسَقَى فَضْلَهُ أُسَامَةَ وَقَالَ: أَحْسَنْتُمْ وَأَجْمَلْتُمْ كَذَا، فَاصْنَعُوا، فَلَا نُرِيدُ تَغْيِيرَ مَا أَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
بکر بن عبد اللہ مزنی نے کہا: میں کعبہ کے پاس حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہو اتھا کہ ان کے پا س ایک دیہاتی آیا اور کہنے لگا: کہا وجہ ہے میں دیکھتا ہوں کہ تمھا رے چچا زاد (حاجیوں کو) دودھ اور شہد پلا تے ہیں اور تم نبیذ پلا تے ہو؟ یہ تمھیں لا حق حاجت مندی کی وجہ سے ہے یا بخیلی کی وجہ سے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا الحمد اللہ نہ ہمیں حاجت مندی لا حق ہے اور نہ بخیلی (اصل بات یہ ہے کہ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر (سوار ہو کر) تشریف لا ئے اور آپ کے پیچھے اسامہ رضی اللہ عنہ سوار تھے آپ نے پانی طلب فرمایا تو ہم نے آپ کو نبیذ کا ایک برتن پیش کیا آپ نے خود پیا اور باقی ماندہ اسامہ رضی اللہ عنہ کو پلا یا اور فرمایا: " تم لوگوں نے اچھا کیا اور بہت خوب کیا اسی طرح کرتے رہنا۔لہٰذا ہم نہیں چا ہتے کہ جس کا کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہم اسے بدل دیں۔
بکر بن عبداللہ مزنی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس کعبہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، کہ ایک بدوی آپ کے پاس آ کر کہنے لگا، کیا وجہ ہے، میں دیکھ رہا ہوں، تمہارے چچا زاد، دودھ اور شہد پلاتے ہیں، اور آپ نبیذ پلاتے ہیں؟ اس کا سبب احتیاج و فقر ہے یا بخل کنجوسی؟ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جواب دیا، الحمدللہ۔ ہم نہ محتاج ہیں اور نہ بخیل، (بات یہ ہے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی طلب فرمایا، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبیذ کا ایک برتن پیش کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا، اور باقی ماندہ اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پلایا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے بہت اچھا اور خوب کام کیا، ایسے ہی کرتے رہنا۔ اس لیے ہم نہیں چاہتے، جس چیز کا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا، اس میں تبدیلی کریں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1316
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 3179 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3179  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
پانی میں کھجوروں یا منقٰی کو ڈال دیا جاتا ہے،
کچھ وقت گزرنے کے بعد کھجوروں اور منقٰی کی مٹھاس پانی میں پیدا ہو جاتی ہے،
یہ نبیذ کہلاتا ہے اور نشہ پیدا ہونے سے پہلے پہلے اس کا پینا جائز ہے،
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے جواب سے معلوم ہوتا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں کسی قسم کا تغیر و تبدیلی پسند نہیں کرتے تھے،
حالانکہ بظاہر لوگوں کو آب زمزم میں دودھ اور شہد ملا کر پلانا زیادہ بہتر اور اچھا نظر آتا ہے،
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ نبیذ پلانے کے عمل کو جاری رکھنے کا حکم دیا تھا،
اس لیے انھوں نے اس تبدیلی کو گوارانہ کیا۔
ایک مسلمان کا کام یہی ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اور عمل کی پابندی کرے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3179