الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ
حج کے احکام و مسائل
18. باب فِي الْمُتْعَةِ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ:
18. باب: حج اور عمرہ میں تمتع کے بارے میں۔
حدیث نمبر: 2948
وحَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: " فَافْصِلُوا حَجَّكُمْ مِنْ عُمْرَتِكُمْ، فَإِنَّهُ أَتَمُّ لِحَجِّكُمْ، وَأَتَمُّ لِعُمْرَتِكُمْ ".
ہمیں ہمام نے حدیث سنائی، انھوں نے کہا: ہمیں قتادہ نے اسی (مذکورہ بالا) سندسے حدیث بیا ن کی، اور (اپنی) حدیث میں کہا: اپنے حج کو اپنے عمرے سے الگ (ادا کیا) کرو۔بلا شبہ یہ تمھارے حج کو اور تمھارے عمرے کو زیادہ مکمل کرنے والا ہے۔
امام صاحب مذکورہ بالا روایت ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں، اور اس میں یہ ہے کہ اپنے حج کو عمرہ سے جدا کرو، کیونکہ اس طرح تمہارا حج الگ پورا ہو گا اور تمہارا عمرہ الگ پورا ہو گا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1217
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2948 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2948  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حج تمتع کرنے کی اجازت دی ہے اور تمتع کی دو صورتیں ہیں۔
(ا)
حج کے مہینوں میں حج سے پہلے عمرہ کر لیا جائے اور پھر اس سفر میں دوبارہ حج کا احرام باندھ کر حج کیا جائے اصطلاحی طور پر اسے حج تمتع کہتے ہیں۔
(ب)
ایک سفر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حج اورعمرہ دونوں ایک ہی احرام سے کر لیے جائیں،
اصطلاحی طور پر اس کو حج قِران کہتے ہیں،
لیکن قرآن کی روسے یہ دونوں حج،
تمتع کہلا تے ہیں،
اب سوال یہ پیداہوتا ہے،
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کس تمتع سے روکتے تھے؟ صحیح بات یہ ہے کہ تمتع سے روکنے کا آغاز حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہما نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں روکا۔
اور متعہ الحج کی دو صورتیں جن سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روکتے تھے،
یہ ہیں۔
(ا)
۔
حج کے احرام کو فسخ کر کے اس کی جگہ پہلے عمرہ کیا جائے اور پھر آٹھ ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھ کر حج کیا جائے جس کو متعہ الفسخ کا نام دیا جاتا ہے،
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے ساتھ خاص سمجھتے تھے،
جیسا کہ جمہور کا مؤقف ہے اس لیے متعہ الفسخ کرنے والے کو مارتے تھے،
لیکن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نظریہ یہ تھا،
جس کے پاس ہدی نہ ہو،
یعنی وہ میقات سے ہدی ساتھ لے کر نہ جائے،
اسے اب بھی متعہ الفسخ پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔
جیسا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ،
ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ،
اور ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کا موقف ہے۔
(ب)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمتع اور قران سے اس لیے روکتے تھے کہ وہ چاہتے تھے حج اور عمرہ الگ الگ سفر میں کیے جائیں تاکہ سال بھر بیت اللہ کا طواف ہوتا رہے اور لوگ حج اور عمرہ دو سفروں میں کریں۔
تاکہ انہیں زیادہ تکلیف و مشقت برداشت کرنی پڑے اور ان کے اجرو ثواب میں اضافہ ہو،
اس طرح حج مفرد کرنا اور پھر عمرہ کرنا ان کے نزدیک افضل تھا اس لیے وہ فرماتے تھے۔
)
اِفْصَلُوْا حَجَّكُمْ مِنْ عُمْرَتِكُمْ (اپنے حج کو اپنے عمرہ سے الگ کرو)
۔
اور حج اور عمرہ کی یہ کیفیت آئمہ اربعہ کے نزدیک بالاتفاق افضل ہے۔
(زاد المعاد ج2ص193۔
194)

اس لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج تمتع اور حج قران سے حج افراد کی ترغیب اور تحریض کی خاطر روکتے تھے،
اس کو منع قرارنہیں دیتے تھے،
لیکن چونکہ وہ خلیفہ تھے اس لیے ان کا روکنا حتمی نص کی شکل اختیار کر لیتا تھا،
نکاح متعہ کے بارے میں تفصیل نکاح کے باب میں آئے گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2948