الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ
روزوں کے احکام و مسائل
30. باب فَضْلِ الصِّيَامِ:
30. باب: روزے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 2709
وَحَدَّثَنِيهِ إِسْحَاق بْنُ عُمَرَ بْنِ سَلِيطٍ الْهُذَلِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا ضِرَارُ بْنُ مُرَّةَ وَهُوَ أَبُو سِنَانٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، قَالَ: وَقَالَ: " إِذَا لَقِيَ اللَّهَ فَجَزَاهُ فَرِحَ ".
عبد العزیز بن مسلم نے کہا: ہمیں ضرار بن مرہ (ابوسنان) نے اسی سند کے ساتھ (سابقہ حدیث کے ما نند) حدیث سنائی، کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب وہ اللہ سے ملے گا اور اللہ اس کو اجرو ثواب عطا کرے گا تو وہ خوش ہو گا۔
یہی روایت امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے ابو سنان ضرار بن مرہ کی ہی سند سے بیان کرتے ہیں اس میں ہے۔ جب اللہ کے حضور شرف باریابی ملے گا اور وہ اسے اجرو ثواب سے نوازے گا خوش ہو گا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1151
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2709 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2709  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
الصيام جنة:
روزہ ڈھال ہے،
جو روزہ دار کو شیطان و نفس کے حملوں سے بچاتا ہے،
وہ اس کو بیہودہ اور فحش گفتگو سے،
شوروشغب سے،
سب و شتم اور لڑائی جھگڑے سے بچاتا ہے،
اس لیے بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے ناحق اور باطل کلام اور باطل کام نہیں چھوڑتا تو اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی ضرورت نہیں ہے،
اس طرح روزہ انسان کے لیے گناہ و معصیت اور شریعت کی حدود کی پامالی سے ڈھال بن کر اللہ کے غیض و غضب اور ناراضی سے ڈھال بنتا ہے اور شیطان و نفس کے حملوں سے بچاؤ کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور غضب کے محل،
آتش دوزخ سے بھی ڈھال بنے گا۔
(2)
للصائم فرحتان:
ایک مومن بندہ جب اللہ کے فریضہ کی ادائیگی سے سبکدوش ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی توفیق عمل پر خوش ہوتا ہے کہ اس نے فرض اور حق کی ادائیگی کی توفیق دی،
دوبارہ خوشی اس وقت ہو گی جب قیامت کے دن روزہ کا اجر اور مزدوری بے حد و حساب لے گا۔
(3)
خلوف فم الصائم:
بھوک و پیاس کے نتیجہ میں روزہ دار کے منہ سے جو بو پیدا ہوتی ہے تو انسانوں کے لیے جتنی اچھی اور جتنی پیاری اور پسندیدہ و محبوب مشک کی خوشبو ہوتی ہے تو بلاشبہ اللہ کے ہاں روزہ دار کے منہ کی بو اس مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور محبوب ہے،
لیکن یہ منہ کی بو،
مسواک وغیرہ سے زائل نہیں ہوتی،
اس لیے روزہ دار کو وضوء کے ساتھ مسواک کرنے کے اجروثواب سے محروم رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں روزہ کی جو خاص فضیلتیں اور برکتیں بیان کی گئی ہیں،
وہ انہی روزہ داروں کے لیے ہیں،
جن کا روزہ شہوت نفس اور کھانے پینے کے علاوہ گناہوں اور بری اور ناپسندیدہ باتوں اور کاموں سے ڈھال بنتا ہے،
جو شخص روزہ رکھے لیکن برے کاموں اور غلط باتوں سے پرہیز نہ کرے اس کے لیے بھوک و پیاس کے سوا کوئی فضیلت و برکت نہیں ہے۔
(4)
رفث:
بیہودہ اور شہوت انگیز،
گندی باتیں اور حرکتیں۔
(5)
الجهل:
حلم اور حکمت کے مقابلہ میں ہے،
اشتعال انگیز اور جذباتی قول و فعل،
غیر دانشمندانہ اور نادرست قول و فعل۔
(6)
خلفة:
خلوف،
خلو معدہ کے نتیجہ میں اٹھنے والی منہ کی بو۔
(7)
صخب،
سخب:
چیخ و پکار،
شوروغل۔
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ کے ہاں روزہ کو اس قدر فضیلت اور قدرومنزلت حاصل ہے کہ امت مرحومہ کے اعمال خیر کے متعلق عام قانون الٰہی تو یہ ہے کہ ایک نیکی کا اجروثواب کم از کم دس گنا ملے گا،
مگر بعض اوقات عمل کرنے کے خاص حالات موقع ومحل کی مناسبت عمل کرنے والے کے اخلاص وخثیت کی بنا پر اعمال حسنہ کا اجر سات سو گنا تک پہنچ جاتا ہے مگر روزہ اس عام قانون رحمت سے مستثنیٰ اور بالاتر ہے،
کیونکہ روزہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہی کے حصول کی خاطر رکھا جاتا ہے،
جس میں ریا کاری نہیں ہو سکتی جس نے ریاکاری کرنی ہو وہ بغیر روزے کے کھا پی کر بھی دعوت افطار میں شریک ہو سکتا ہے۔
اس لیے فرمایا:
وہ میری ہی خاطر اپنی خواہش اور اپنا کھانا پینا چھوڑتا ہے،
اس لیے میں ہی اپنی مرضی کے مطابق اسکی قربانی اور نفس کشی کا اجروثواب اور صلہ وجزا دوں گا اور یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ روزہ میں انسان عارضی طور پر کچھ وقت کے لیے اللہ تعالیٰ کی صفت استغناء اور بے نیازی کا مظہر بنتا ہے اور اپنی طبعی وفطری ضروریات سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کی خاطر اجتناب اور پرہیز کرتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2709