ابن ابی عمر، سفیان، ایوب، عبداللہ بن سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اس دن کی کیا وجہ ہے؟تو وہ کہنے لگے کہ یہ وہ عظیم دن ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کونجات عطا فرمائی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق فرمایا چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کاروزہ رکھا اس لئے ہم بھی روزہ رکھتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم زیادہ حق دار ہیں اور تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے قریب ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور اپنے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے پایا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے دریافت کیا۔ ”یہ دن جس کا تم روزہ رکھتے ہو اس کی کیا حقیقت و خصوصیت ہے؟“ انھوں نے کہا یہ بڑی عظمت والا دن ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کی نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرقاب کیا تھا تو موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اس کا روزہ رکھا اس لیے ہم بھی (ان کی پیروی میں) اس دن روزہ رکھتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارا موسیٰ ؑ سے تعلق تم سے زیادہ ہے اور ہم ان کے زیادہ حق دار ہیں“ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو بھی (فرائض وواجبات کی طرح تاکید ی) حکم دیا۔