(ابو اسحاق سلیمان بن فیروز کوفی) شیبانی نے ولید بن عیزار سے، انہوں نے سعد بن ایاس ابو عمرو شیبانی سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ میں نے رسول اللہ سے پوچھا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ” نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا۔“ میں پوچھا: اس کے بعد کون؟ فرمایا: ” والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔“ میں نے پوچھا: پھر کون سا؟ فرمایا: ” اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“ میں نے مزید پوچھنا صرف اس لیے چھوڑ دیا کہ آپ پر گراں نہ گزرے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نماز اپنے وقت پر۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا؟ فرمایا: ”والدین کے ساتھ حسنِ سلوک۔“ میں نے پوچھا پھر کون سا؟ فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد۔“ میں نے آپ کی رعایت و لحاظ کی خاطر مزید سوالات نہ کیے۔ (کہ آپ پر گراں نہ گزرے)
ترقیم فوادعبدالباقی: 85
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في مواقيت الصلاة، باب: فضل الصلاة لوقتها برقم (504) وفي الجهاد، باب: فضل الجهاد والسير برقم (2630) وفي الادب، باب: البر والصلة برقم (5625) وفي التوحيد،باب: وسمى النبي صلى الله عليه وسلم الصلاة عملا وقال: ((لاصلاة لمن لمن يقرا بفاتحة الكتاب)) برقم (7096) والترمذى في ((جامعه)) في الصلاة، باب: ما جاء في الوقت الاول من الفضل۔ وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (173) والنسائي في ((المجتبى)) 1//292 في المواقيت، باب فضل الصلاة لمواقيتها - انظر ((تحفة الاشراف)) (9232)»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 140
´نماز کو اول وقت پر پڑھنا تمام اعمال سے افضل` «. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: افضل الاعمال الصلاة في اول وقتها . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اول وقت میں نماز پڑھنا سب اعمال سے افضل ہے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 140]
� فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث میں نماز کو اول وقت پر پڑھنا تمام اعمال سے افضل بیان کیا گیا ہے جب کہ دوسری احادیث میں ایمان، صدقہ اور جہاد کو افضل اعمال بتایا گیا ہے۔ تمام احادیث اپنے اپنے مفہوم میں صحیح ہیں۔ ➋ ان میں موافقت اور تطبیق اس طرح ہو گی: ایمان کا تعلق قلب و ضمیر سے ہے، لہٰذا ایمان قلبی اعمال میں سب سے افضل ہے، اور نماز کا تعلق بدنی عبادت سے ہے، یہ بدنی اعمال میں سب سے افضل ہے، صدقے کا تعلق مالیات سے ہے، مالی اعمال میں سب سے افضل صدقہ ہے اور جہاد جوانی، تو انائی اور صحت کا سب سے بہترین اور افضل عمل ہے۔ اس طرح ان میں باہمی منافات نہیں رہتی۔ ➌ یہ حدیث عام ہے مگر اس سے عشاء کی نماز خارج ہے کیونکہ اسے تاخیر سے پڑھنا افضل ہے۔ اور اسی طرح سخت گرمی میں نماز ظہر بھی مستثنیٰ ہے۔ گرمی میں اسے بھی قدرے تاخیر سے پڑھنے کا حکم ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 140
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 527
´افضل عمل` «. . . قَالَ:" سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ؟ قَالَ: الصَّلَاةُ عَلَى وَقْتِهَا، قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ، قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ . . .» ”. . . میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے وقت پر نماز پڑھنا، پھر پوچھا، اس کے بعد، فرمایا والدین کے ساتھ نیک معاملہ رکھنا۔ پوچھا اس کے بعد، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ: 527]
� فہم الحدیث: درج بالا احادیث جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے افضل عمل کے بارے میں سوال اور آپ کی طرف سے مختلف جوابات کا ذکر ہے، اہل علم نے ان میں یوں تطبیق دی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بار ضرورت کے مطابق جواب دیا اور جس عمل کی ضرورت زیادہ تھی اسی کو افضل قرار دے دیا، یعنی اگر جہاد کی ضرورت زیادہ تھی تو اسے افضل کہہ دیا اور اگر نماز کی پابندی کی ضرورت زیادہ تھی تو اسے افضل قرار دے دیا وغیرہ۔ «والله اعلم»
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 52
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 611
´وقت پر نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وقت پر نماز پڑھنا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 611]
611 ۔ اردو حاشیہ: باب کا مقصد یہ ہے کہ اصل یہی ہے کہ ہر نماز اپنے وقت پر پڑھی جائے، سوائے عرفات اور مزدلفہ کے کہ وہاں نمازیں جمع کرنا شرعی حکم ہے اور سفر میں بھی دو نمازوں کو جمع کرنا مشروع ہے۔ سفر میں بھی افضل ہر نماز کو وقت ہی پر پڑھنا ہے۔ سفر میں جمع کرنا رخصت ہے، افضل نہیں۔ اسی طرح حضر میں کبھی کسی عذر کی بنا پر جمع کرلینا بھی رخصت ہے، بہرحال ہر نماز کو حسب امکان اپنے وقت ہی پر ادا کرنا چاہیے۔ واللہ آعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 611
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1898
´ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے سے متعلق ایک اور باب۔` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ”وقت پر نماز ادا کرنا“، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! پھر کون سا عمل زیادہ بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا“، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! پھر کون سا عمل؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، حالانکہ اگر میں زیادہ پوچھتا تو آپ زیادہ بتاتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1898]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد سب سے افضل وبہترعمل ہے، بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا یہ سب سے اچھا کام ہے، اور بعض سے معلوم ہوتاہے کہ زکاۃ سب سے اچھاکام ہے، جب کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز سب سے افضل عمل ہے، اسی لیے اس کی توجیہ میں مختلف اقوال وارد ہیں، سب سے بہتر توجیہ یہ ہے کہ ”افضل اعمال“ سے پہلے حرف ”مِن“ محذوف مان لیاجائے، گویا مفہوم یہ ہوگا کہ یہ سب افضل اعمال میں سے ہیں، دوسری توجیہ یہ ہے کہ ا س کا تعلق سائل کے احوال اور وقت کے اختلاف سے ہے، یعنی سائل اور وقت کے تقاضے کا خیال رکھتے ہوئے اس کے مناسب جواب دیا گیا۔ اوراپنی جگہ پریہ سب اچھے کام ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1898
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 256
حضرت عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اعمال میں سب سے افضل یا افضل عمل وقت پر نماز پڑھنا اور والدین سے حسنِ سلوک اور نیکی کرنا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:256]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: آپ ﷺ نے مختلف اوقات او ر مختلف موقع ومحل کی ضرورت ورعایت اور مختلف اشخاص کے مزاج اور مصلحت کی رعایت رکھتے ہوئے مختلف لوگوں کو مختلف جوابات دیئے ہیں، اس لیے ان احادیث میں تعارض نہیں ہے، تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ (1/14) 166/42 میں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 256
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:527
527. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا: اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نماز کی بروقت ادائیگی۔“ انھوں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”والدین سے حسن سلوک۔“ انھوں نے عرض کیا: اس کے بعد کون سا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے اسی قدر بیان کیا، اگر میں مزید پوچھتا تو آپ اور بیان فرماتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:527]
حدیث حاشیہ: (1) حضرات صحابۂ کرام رسول اللہ ﷺ کا انتہائی ادب واحترام کرتے تھے۔ مذکورہ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اس اندیشے کے پیش نظر کہ مبادا آپ اکتا جائیں مزید سوالات سے گریز کیا، حالانکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حصول علم پر بہت حریص تھے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز عمل ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ کسی عالم دین سے سوالات کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں یہ اکتاہٹ میں مبتلا نہ ہوجائے۔ (2) بعض دیگر احادیث میں اور اعمال کو افضل قرار دیا گیا ہے؟ دراصل رسول اللہ ﷺ ہر شخص کو اس کی حالت و نفسیات اور استعداد ولیاقت کے مطابق جواب دیا کرتے تھے۔ بعض اوقات حالات کے تقاضے کے پیش نظر جواب مختلف ہو جاتا، مثلا: ابتدائے اسلام میں جہاد کی زیادہ ضرورت تھی، اس لیے بعض احادیث میں اسے افضل عمل قرار دیا گیا ہے۔ متعدد نصوص سے نماز کا، صدقہ و خیرات سے افضل ہونا ثابت ہے، لیکن اگر کوئی مجبورولاچار آدمی بھوک سے دوچار ہو تو اس وقت اس پر صدقہ کرنا نماز سے افضل قرار پائے گا۔ (فتح الباري: 14/2)(3) امام بخاری ؒ بعض اوقات تراجم کے ذریعے سے کسی مسئلے کا استنباط کرنے کے بجائے صرف حدیث کے معنی متعین کرتے ہیں۔ اس حدیث میں (الصلاة علی وقتها) کے الفاظ سے یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ نماز وقت سے پہلے ہو سکتی ہے، اس وہم کو دور کرنے کے لیے امام بخاری ؒ نے عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے (فضل الصلاة لوقتها) اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث میں لفظ علیٰ، لام کے معنی دے رہا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 527
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2782
2782. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ!کون سا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ”بروقت نماز ادا کرنا۔“ میں نے عرض کیا: اس کےبعد؟آپ نے فرمایا: ”والدین کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا۔“ میں نے عرض کیا: پھر اس کے بعد؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔“ پھر میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کرنے میں سکوت اختیار کیا۔ اگر میں زیادہ پوچھتا تو آپ مجھے مزید جوابات سے نوازتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2782]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ تین کاموں کو افضل عمل قراردیا ہے کیونکہ یہ تینوں کام دیگر طاعات کے لیے پیش خیمہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے معنی ہیں کہ جوانسان ان کی بجاآوری کرے گا وہ باقی کاموں کی بجا آوری میں بھی پیش پیش ہوگا اور جو انھیں ادا کرنے میں پہلو تہی کرے گا وہ دیگر معاملات کو خراب کرنے میں بڑادلیر ہوگا۔ (فتح الباري: 7/6) ایک حدیث میں (إطعام الطعام) کو بہترین اسلام کہا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث 12) جبکہ ایک دوسری حدیث میں ہے: ”دوسرے مسلمانوں کو اپنے ہاتھ اورزبان سے تکلیف نہ دینا افضل اسلام ہے۔ “(صحیح البخاري، الإیمان، حدیث 11) اس قسم کی دیگر احادیث میں تضاد نہیں ہے کیونکہ رسول اللھ ﷺ ہرشخص کو اس کی حالت کے مطابق جواب دیتے تھے یا جس چیز کی مخاطب میں کمی محسوس کرتے،اس کے ازالے کے لیے مناسب جواب دیتے تھے۔ واللہ أعلم۔ 2۔ امام بخاری ؒ کا مقصد اس حدیث سے جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت ثابت کرنا ہے جو بالکل واضح ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2782
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7534
7534. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے پوچھا: کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ”بر وقت نماز پڑھنا، والدین سے حسن سلوک کرنا، پھر اللہ کے راستے میں جہاد کرنا“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7534]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو افضل عمل قرار دیا ہے اور نماز میں قراءت بھی ہوتی ہے بلکہ اسے نماز کا جزواعظم کہنا چاہیے او یہ قراءت نماز ہی کا عمل ہے اور اس کا کسب ہے جبکہ قرآن جس کی قراءت ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کےذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پراُتارا ہے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے یہی ثابت کیا ہے کہ تلاوت وقراءت اور مَتلُوّ و مَقرَو میں نمایاں فرق ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7534