محمد بن جعفر (بن ابی کثیر) نے کہا: مجھے شریک نے خبر دی، کہا: مجھے عطاء بن یسار اور عبدالرحمان بن ابی عمرہ نے بتایا کہ ان دونوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ (آگےمحمد کے بھائی) اسماعیل کی روایت کے مانند ہے۔
امام صاحب نے مذکورہ بالا حدیث اپنے دوسرے استاد سے بیان کی ہے۔حدیث حاشیہ: This hadith has been narrated through another chain of transmitters.حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: محمد بن جعفر(بن ابی کثیر) نے کہا: مجھے شریک نے خبر دی،کہا: مجھے عطاء بن یسار اور عبدالرحمان بن ابی عمرہ نے بتایا کہ ان دونوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا،کہہ رہے تھے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔(آگےمحمد کے بھائی) اسماعیل کی روایت کے مانند ہے۔حدیث حاشیہ: اسماعیل نے جو ابن جعفر(بن ابی کثیر) ہیں،کہا:مجھے شریک نے حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے آزاد کردہ غلام عطاء بن یسار سے خبردی،انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"(اصل) مسکین وہ نہیں جسے ایک دو کھجوریں یا ایک دو لقمے لوٹا دیتے ہیں،اصل مسکین سوال سے بچنے والا ہے،چاہو تو یہ آیت پڑھ لو:"وہ لوگوں سے چمٹ کر(اصرار سے) نہیں مانگتے۔"حدیث حاشیہ: محمد بن جعفر(بن ابی کثیر) نے کہا: مجھے شریک نے خبر دی،کہا: مجھے عطاء بن یسار اور عبدالرحمان بن ابی عمرہ نے بتایا کہ ان دونوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا،کہہ رہے تھے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔(آگےمحمد کے بھائی) اسماعیل کی روایت کے مانند ہے۔ حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: محمد بن جعفر(بن ابی کثیر) نے کہا: مجھے شریک نے خبر دی،کہا: مجھے عطاء بن یسار اور عبدالرحمان بن ابی عمرہ نے بتایا کہ ان دونوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا،کہہ رہے تھے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔(آگےمحمد کے بھائی) اسماعیل کی روایت کے مانند ہے۔حدیث حاشیہ: رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر) ١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم2439٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)1039.02٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)1723.01٤. ترقيم فؤاد عبد الباقي (برنامج الكتب التسعة)ترقیم فواد عبد الباقی (کتب تسعہ پروگرام)1039.02٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)2381٧. ترقيم دار إحیاء الکتب العربیة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم دار احیاء الکتب العربیہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)1039.02٨. ترقيم دار السلامترقیم دار السلام2395 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × "زکاۃ"زكا.يزكو.زكاةسے ہے۔اس کا لغوی معنی اگنا اور بڑھنا ہے۔بڑھوتری تبھی ممکن ہے جب اگنے والی چیز آفات و امراض سے پاک ہو، زكا کا ایک معنی اچھا یا پاک ہونا بھی ہے۔عرب کہتے ہیں۔زكت الارض اس کا معنی ہے۔طابتیعنی زمین اچھی صاف ستھری ہوگئی۔تزکیہ اسی سے ہے۔نفوس کا تزکیہ یہ ہے کہ ان کو آفات،بہت سے امراض اور آلائشوں سے پاک کیا جائے۔انسان کو اللہ تعالیٰ فطرت سلیمہ عطا کرکے دنیا میں بھیجتا ہے۔ماں باپ اور دوسرے قریبی لوگ اس کی فطرت کو آلودہ کردیتے ہیں۔سب سے زیادہ آلودگی یہ ہوتی ہے کہ انسان وجود عطاکرنے والے اور پالنے والے اللہ کی محبت کے بجائے مادی اشیاء کی محبت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔یہ مرض باقی دنیا کے تمام امراض کا سبب بنتا ہے۔اسی سے حرص وہوس،لالچ،خودغرضی،ظلم،سرکشی،طغیان،غرض سب بیماریاں پیدا ہوتی اور بڑھتی ہیں۔انبیائے کرام خصوصاً محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد نفوس انسانی کا تزکیہ کرنا،یعنی انھیں ان تمام مہلک بیماریوں سے نجات دلاناہے،اللہ کا ارشاد ہے"هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ"وہ جس نے امیوں(ان پڑھوں) میں انھی میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو ان کے سامنے اس کی آیات پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے،یقیناً وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔"(الجمعۃ۔2:62)ویسے تو تمام ارکان اسلام تزکیہ نفوس کا زریعہ ہیں،ان میں سے زکاۃ بطور خاص اس مقصد کے لئے مقرر کی گئی ہے۔قرآن مجید میں صدقات اور اللہ کی راہ میں مال دینے کو تزکیے کا زریعہ بتایا گیا ہے۔رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ"ان کے مالوں میں سے صدقہ(زکاۃ) لیں،اس کے زریعے سے انھیں پاک کریں،انھیں صاف ستھرا کریں اور ان کو دعا دیں۔"(التوبہ۔9:103)اپنا تزکیہ اللہ کی راہ میں مال دے کر کیا جاسکتا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہےالَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ "جو اپنا مال دیتا ہے پاک ہونے کے لئے۔"(اللیل۔18:92)امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیںنفس المتصدق تزكو وماله يزكو(اي)يطهر ويزيد في المعني"صدقہ دینے والا خود بھی پاک ہوتا ہے اور اس کا مال بھی پاک ہوتا ہے۔۔۔"(مجموع فتاویٰ لابن تیمیہؒ8/25) اس کے مقاصد میں سے ایک مواسات بھی ہے۔بنیادی اصول یہ ہے۔(توخذ من اغنيائهم وترد الي فقرائهم)"ان کے مال داروں سے لیا جائے اور ان کے فقیروں پر لوٹایا جائے۔"اس لحاظ سے زکاۃ کی صحیح ادائیگی امت کی اجتماعیت اور یکجہتی کی ضامن ہے۔اسلام نے زکاۃ بنیادی طور پر انھی اموال میں مقرر کی ہے۔جن میں بڑھوتری(نمو) ہوتی ہے،یعنی مویشی،کھیتی باڑی،مال تجارت اورنقدی جن میں باقی تمام اموال کی قدر محفوظ رکھی جاسکتی ہے۔ یہ بھی اسلام کی رحمت کا مظہر ہے۔کہ زکاۃ کا ایک نصاب مقرر کیا گیا ہے۔مقصود یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے بعد کچھ زائد ہو۔ان سے زکاۃ وصول کی جائے،جن کے پاس بنیادی ضرورتوں کے لئے بھی مال نہ ہو یا کم ہو ان کو چھوٹ دی جائے بلکہ ان کی مدد کی جائے۔جدید معاشیات نے ٹیکس کے حوالے سے بنیادی چھوٹ کا تصور نصاب زکاۃ ہی سے لیاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت آسان اور جامع لفظوں میں بہت خوبصورتی کے ساتھ اس نصاب کو یوں بیان فرمایا:()"پا نچ وسق سے کم میں صدقہ نہیں اور نہ پانچ اونٹوں سے کم میں صدقہ ہے۔اور نہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں صدقہ ہے۔"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پانچوں انگلیوں سے اشارہ کیا۔ یہی کتاب الزکاۃ میں امام مسلم ؒ کی لائی ہوئی پہلی حدیث ہے۔ وسق ماپنے کا پیمانہ ہے۔غلہ،خشک کھجوریں،کشمش وغیرہ کا لین دین وسق سے ماپ کرہوتا تھا۔پانی اور دوسری مائع اشیاء کو بھی اسی پیمانے سے ماپا جاتا تھا۔ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔اس بارے میں اگرچہ ابن ماجہ،ابو داود،اور نسائی میں مرفوع حدیثیں بھی موجود ہیں لیکن وہ سب کی سب ضعیف ہیں۔(التلخیص الجیر لابن حجر 169/2،رقم:841۔842) اس حوالے سے اعتماد اس بات پر ہے کہ اس مقدار پر اجماع ہے۔(مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہؒ447/5) صاع کی مقدار پر البتہ اہل کوفہ اور اہل حجاز یا یوں کہہ لیجئے تمام ائمہ(مالک،شافعی،احمدؒ) کے درمیان اختلاف ہے۔حجاز میں زرعی اجناس کے لین دین کا نمایاں مرکز مدینہ تھا۔ان کا صاع ہی حجازی صاع کہلاتا تھا۔کوفہ میں حجاج بن یوسف نے جوصاع متعارف کروایا تھا وہ حجازی صاع سے نسبتاًبڑاتھا،اسے صاع عراقی یا صاع حجاجی کہا جاتا تھا۔ اہل کوفہ ایک صاع کووزن میں 8 رطل کے برابر قرار دیتے ہیں جبکہ اہل حجاز 5.3 رطل کے برابر۔ امام ابو یوسف اورکئی دوسرے اہل کوفہ نے حج کے موقع پر زیارت مدینہ کے دوران میں جب پتہ لگانا چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاصاع کتنا تھا تو کثیر تعداد میں مہاجرین اور انصار کے بیٹوں نے اپنے اپنے گھروں سے اپنے خاندانی صاع،جوصحابہؓ استعمال کرتے رہے تھے،لا کردکھائے،امام ابو یوسف ؒ نے کہا:میں نے ان کی مقدار جانچی تو وہ سب آپس میں مساوی اور 5.3 رطل کے برابر تھے۔(فرايت امرا قويا فقد تركت قول ابي حنيفة في الصاع واخذت بقول اهل المدينة)"میں نے بہت پختہ بات دیکھی تو میں نے صاع کے بارے میں ابو حنیفہ کا قول چھوڑ دیا اور اہل مدینہ کاقول لے لیا۔"(سنن الکبریٰ للبیہقی:171:4 وسنن الدارقطنی:150:2 حدیث 2105 ط:دارالکتب العلمیۃ۔۔۔امام شوکانیؒ اس کی سند کو جید قرار دیتے ہیں) جدید محققین نے آج کل کے حساب سے صاع کا وزن معلوم کیا تو وہ ان کے خیال کے مطابق2176۔گرام بنتاہے۔(فقہ الزکاۃ للدکتور یوسف القرضاوی372/1) گندم کے پانچ وسق 653 کلوگرام بنتے ہیں۔(فقہ الزکاۃ للدکتور یوسف القرضاوی:373/1) ایک اوقیہ میں چالیس درہم ہوتے ہیں،ایک درہم کاوزن جدید تحقیق کے مطابق 2.975 گرام بنتاہے،اس طرح ایک اوقیہ کا وزن ایک سو انیس گرام اور پانچ اوقیہ چاندی کاوزن پانچ سو پچانوے گرام بنتا ہے۔اس کے تولے بنائے جائیں تو تقریباً اکاون تولے بنتے ہیں۔سابقہ اندازہ ساڑھے باون تولے چاندی کا تھا جو اس مقدار کے قریب ہی تھا۔ سونے کے نصاب زکاۃ کا تذکرہ صحیحین کی احادیث میں نہیں۔امام ابو داودؒ نے حضرت علیؓ کے حوالے سے حدیث بیان کی ہے،اس کے الفاظ ہیں:()"تم پر کوئی چیز(بطور زکاۃ ادا کرنا)فرض نہیں،یعنی سونے میں جب تک تمھارے پاس(کم از کم) بیس دینار نہ ہوں۔جب تمھارے پاس بیس دینار ہوں اور ان پر سال گزرجائے توان میں آدھا دینار(زکاۃ) ہے،جو اس سے زیادہ ہوگا وہی اس حساب کے مطابق(محسوب) ہوگا۔"(سنن ابی داود،الزکاۃ باب فی الذکاۃ السائمۃ حدیث 1573۔قاضی عیاض ؒ کہتے ہیں:سونے کے نصاب پر اجماع ہے۔ سونے کے دینار میں چوبیس قراط ہوتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رومی اور ایرانی دینار استعمال ہوتے تھے۔عبدالملک بن مروان نے زکاۃ کے نصاب کو پیش نظر رکھتے ہوئے،اہل علم کے اتفاق سےجو دینار ڈھالے اور جن کے مطابق صدیوں تک دینار ڈھالے جاتے رہے وہ دینار مل بھی چکے ہیں۔ان دیناروں کے وزن کے مطابق سونے کی زکاۃ کا نصاب85گرام بنتا ہے۔یہ برصغیر پاک وہند میں سونے کے نصاب کا جو حساب لگایا گیاتھا وہ ساڑھے سات تولے تھا،اس کے ستاسی گرام بنتے ہیں،یعنی محض دو گرام زیادہ۔اب تقریباً پورے عالم اسلام کا 85 گرام پر اتفاق ہے۔ نقدی:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سونے چاندی یا ان کے ڈھلے ہوئے سکے بطور نقدی استعمال ہوتے تھے۔علمائے امت کا اجماع ہے کہ کرنسی کو انھی پر قیاس کیاجائے گا۔مغربی استعمار کے غلبے کے بعد دنیا میں کاغذ کی کرنسی رائج ہوئی۔ہر ملک ایسی کرنسی سونے یا چاندی کی بنیاد پر جاری کرتاتھا۔(خزانے میں کرنسی کے مساوی یا ایک خاص تناسب سے سونا یا چاندی کا موجود ہوناضروری تھا)کچھ عرصے بعد یہ بنیاد بھی ختم ہوگئی،اب کرنسی کی بنیاد نہ سونے پر ہے نہ چاندی پر۔اب لوگوں کے پاس موجودہ کرنسی پر زکاۃ کانصاب کیاہوگا؟بعض لوگ کہتے ہیں اسے چاندی کے نصاب پر قیاس کیا جائے۔بعض سونے کے نصاب پر قیاس کرنے کے قائل ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاندی اورسونے دونوں کا نصاب قیمت یا مالیت کے اعتبار سے مساوی تھا لیکن بعد میں چاندی اپنی قیمت برقرار نہ رکھ سکی،باقی اشیاء جن پر زکاۃ فرض ہے۔مثلاً بھیڑ،بکریاں،یا اونٹ وغیرہ ان کی مالیت کے ساتھ چاندی کے نصاب کی مالیت کوئی مطابقت نہیں رکھتی،ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت میں پانچ چھ سے زیادہ بکریاں نہیں خریدی جاسکتیں۔دوسری طرف سونے کی قیمت بھی غیر متناسب طریقے پر زیادہ ہورہی ہے۔اب کرنسی کی زکاۃ کامسئلہ انتہائی سنجیدہ غور وفکر کا متقاضی ہے۔ امام قرطبیؒ نے ابو عبید قاسم بن سلامؒ کے حوالے سے لکھا ہے۔کے اسلام کے ابتدائی دور میں ایرانی اور رومی د ونوں قسموں کے درہم متد اول تھے۔ایک دوسرے کا آدھا تھا۔ایک کا وزن آٹھ دانق تھا اور دوسر ے کا چاردانق،لوگ دونوں کو مساوی طور پر ملا کر یعنی آدھے بڑے اورآدھے چھوٹے دراہم سے اپنے معاملات طے کیا کرتے تھے۔اسلام آیا تو لوگوں نے زکاۃ کی ادائیگی کے لئے یہی طریقہ اختیار کیا۔وہ سو ایرانی اور سو رومی درہموں کو ملا کر ان سے زکاۃ کے نصاب کا تعین کرتے۔دونوں کو مساوی تعداد میں ملانے سے پانچ اوقیہ چاندی کا نصاب پورا ہوجاتا،اسی طرح زکاۃ ادا کی جاتی۔عبدالملک نے جب اپنے درہم ڈھلوانے کا ارادہ کیا تو تمام اہل علم کو جمع کیا۔انھوں نے درہم کا وزن،دونوں درہموں کی اوسط،یعنی 4 8 دانق کا نصف6 دانق مقرر کیا۔اس طرح سے دو سو درہموں میں پانچ اوقیہ چاندی پوری ہوجاتی تھی۔ اگر سونے کی قیمتیں اسی طرح غیر متناسب انداز میں بڑھتی رہیں تو ایسا کیا جاسکتاہے کہ کرنسی کے لئے چاندی کے نصاب کی مالیت کا نصف سونے کی نصاب کی مالیت کا نصف ملا کر مقدار نصاب متعین کرلیا جائے۔اس کے لئے پورے عالم اسلام کے حوالے سے اہل علم کا اجماع حاصل کرنا ناگزیر ہوگا۔فی الحال یہی مناسب ہے کہ جب تک سونے کے نصاب اور چاندی کو چھوڑ کرباقی اشیاء کے نصاب کی قیمتیں قریب قریب رہتی ہیں سونے کے نصاب کو کرنسی کے نصاب کی بنیاد بنایا جائے۔ کتاب الذکاۃ میں امام مسلم ؒ نے جس ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں،۔اس کے بارے میں امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:امام مسلمؒ نےامام مالک ؒ کی موطا کی طرح اپنی صحیح میں صحت کے اعلیٰ ترین معیار پر احادیث ترتیب دی ہیں۔انھوں نے پہلے چاندی کا نصاب ذکر کیا ہے۔پھر اونٹوں کا،پر اجناس خوردنی اور خشک پھلوں کا،پھر مویشی اور دیگر اشیاء کا، پھر یہ کہ ایک سال گزرنا ضروری ہے۔اس غرض سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ،عمر ؓ،اور ابن عمر ؓ،کے حوالے سے روایتیں بیان کیں،اس میں اگرچہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباسؓ اختلاف کرتے ہیں،لیکن دو خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے جو کیا ہے وہ اس لئے راحج ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهدين من بعدي"تم میری سنت اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔"(شرح مشکل الآثار 3/223 حدیث 1186،نیز دیکھئے،سنن ابن ماجہ حدیث 42،43،وسنن ابی داود حدیث،4607۔4608) اور یہ بھی فرمایا:((فان يطيعواابابكر وعمر يرشدوا))"اگر وہ ابو بکر اور عمر رضوان اللہ عنھم اجمعین کی اطاعت کریں تو راہنمائی پائیں گے"(صیح مسلم حدیث 681) اس کے بعد امام مسلمؒ نے سونے کی زکاۃ کا ذکر کیا ہے۔کیونکہ اسکی دلیل کی قوت نسبتاً کم ہے۔پھر ان چیزوں کاذکر کیاگیاہے جن میں زکاۃ فرض کی گئی ہے۔اس حوالے سے قرآن کی آیات اور احادیث بیان کی ہیں۔ان میں بہترین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت اور زکاۃ کےی بارے میں آپ کا مکتوب ہے۔ان کے بعد وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ سے روایت لائے ہیں۔(مجموع فتاویٰ لابن تیمیہؒ25:9)