یحییٰ القطان نے کہا: ہمیں سفیان نے حبیب سے اسی سند کے ساتھ (سابقہ حدیث کے مانند) حدیث بیان کی اور انھوں نے (لا تدع تمثالا الا طمستہ کے بجائے) ولا صورۃ الا طمستہا (کوئی تصویر نہ چھوڑنا مگر اسے مٹا دینا) کہا ہے۔
مصنف یہی روایت ایک دوسرے استاد سے بیان کرتےہیں، اس میں ہے کہ تصویر کو مٹائے بغیر نہ چھوڑوں۔ (یعنی تمثال کی جگہ تصویرکا لفظ ہے)
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2244
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی قبر کو عام قبروں سے بلند اور اونچا بنانا جائز نہیں ہے اگر طاقت وقوت یعنی اقتدار واختیار ہو تو بلند قبروں کو زمین کے قریب کر دینا چاہیے اس لیے بالاتفاق ایک بالشت سے اونچی قبر گرا کر اس کوعام قبروں کے برابر کر دیا جائے گا قبر کو صرف عام زمین سے ممتاز کرنے کے لیے کچھ بلند رکھا جاتا ہے۔ لیکن افسوس آج کل عام طور پر آپﷺ کے اس صریح فرمان کو نظر انداز کرکے قبریں اونچی بنائی جاتی ہیں۔ 2۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، مالک رحمۃ اللہ علیہ، احمد رحمۃ اللہ علیہ، کے نزدیک قبر اونٹ کی کوہان کی شکل میں بنائی جائے گی۔ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہموار اور مسطح یعنی چوکور ہو گی لیکن زمین سے زیادہ بلند کسی کے نزدیک بھی نہیں بنائے جائے گی۔