الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2231
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے بارے میں یہ اختلاف ہے کہ اس کا معنی کیا ہے امام بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس کا یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوتے جب گزر جاتا یا نظروں سے اوجھل ہو جاتا تو بیٹھ جاتے جیسا کہ مذکورہ بالا باب کی روایات میں یہ تصریح موجود ہے۔ اور امام ملاعلی قاری کا خیال ہے کہ اس حدیث کا تعلق قبرستان میں یا قبر میں جنازہ رکھنے سے ہے کہ قبرستان میں جنازہ رکھنے سے پہلے بیٹھنا صحیح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے نہیں بیٹھتے تھے بعد میں بیٹھنے لگ گئے اور بعض کا خیال ہے کہ اس حدیث کا تعلق مطلقاً قیام سے ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ اور ائمہ میں اختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ یہ استحبابی حکم ہے کھڑا ہونا اور رکھے جانے تک کھڑے رہنا بہتر ہے اور یہی قول مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کھڑے ہونا بہتر ہے اور بیٹھنا جائز ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اختیار ہے کوئی پابندی نہیں ہے جیسا چاہے کر لے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما، ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ، احمد رحمۃ اللہ علیہ۔ اسحاق محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف یہی ہے کہ جب تک قبرستان میں جنازہ رکھ نہ دیا جائے اس وقت تک بیٹھنا درست نہیں ہے لیکن ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔ مالک رحمۃ اللہ علیہ۔ شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور بعض صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ کی رائے میں جنازہ اٹھنا اور قبرستان میں رکھنے تک کھڑے رہنا منسوخ ہے۔