عبدالملک بن صباح نے ہشام دستوائی سے اسی سند کےھ ساتھ اسی (سابقہ حدیث) کے مانند حدیث بیان کی، مگر انھوں نے کہا: (آپ نے فرمایا:) "میں نے آگ میں بلاد حمیر کی (رہنے والی) ایک سیاہ لمبی عورت دیکھی۔"اور انھوں نےمن بنی اسرائیل (بنی اسرائیل کی) کے الفاظ نہیں کہے۔
یہی روایت امام صاحب ایک دوسری سند سے بیان کرتے ہیں، ہاں یہ فرق اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے آگ میں ایک حمیری سیاہ لمبی عورت دیکھی۔“ یہ نہیں کہا کہ (وہ اسرائیلی تھی۔)
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2101
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت اور دوزخ کے مختلف مناظر دکھائے گئے اور آپﷺ نے جنت کا ایک گچھا توڑنا چاہا۔ لیکن چونکہ جنت کی اشیاء دنیا میں نہیں آ سکتیں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محسوس ہو گیا کہ میں اس گچھا کو نہیں توڑ سکتا، اور اس حدیث میں اس کو یوں بیان کیا گیا ہے ”میرا ہاتھ اس تک نہ پہنچ سکا“ اس لیے بعض احادیث کے الفاظ کو دیکھ کر یہ کہہ دینا کہ جنت آپﷺ کے تصرف اور ملکیت میں دے دی گئی محض تحکم اور سینہ زوری ہے۔ (2) جانوروں پر ظلم و ستم کرنا ان کو کھانے پینے سے محروم رکھنا عذاب کا باعث بن سکتا ہے۔ (3) عمرو بن لحی عمرو بن مالک، عمرو بن عامر خزاعی ایک ہی شخص ہے۔ (4) کسوف شمس کا یہ واقعہ 13 اگست 630 بمطابق 28ربیع الاول 9 ہجری کو پیش آیا اور عرب میں اگست کے مہینہ میں گرمی شدید ہوتی ہے کیونکہ وہاں بارش بہت کم پڑتی ہے اور اسی حدیث سے ثابت ہوا کہ یہ نماز کسوف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفات پر نہیں پڑھی گئی کیونکہ وہ تو جنوری میں واقع ہوئی جو گرمی کا مہینہ نہیں ہے۔