مجاہد سے روایت ہے کہ بشیر بن کعب عدوی حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے پاس آیا اور اس نے احادیث بیان کرتے ہوئے کہنا شروع کر دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ حضرت ابن عباسؓ (نے یہ رویہ رکھا کہ) نہ اس کو دھیان سے سنتے تھے نہ اس کی طرف دیکھتے تھے۔ وہ کہنے لگا: اے ابن عباس! میرے ساتھ کیا (معاملہ) ہے، مجھے نظر نہیں آتا کہ آپ میری (بیان کردہ) حدیث سن رہے ہیں؟ میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنا رہا ہوں اور آپ سنتے ہی نہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک وقت ایسا تھا کہ جب ہم کسی کو یہ کہتے سنتے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو ہماری نظریں فوراً اس کی طرف اٹھ جاتیں اور ہم کان لگا کر غور سے اس کی بات سنتے، پھر جب لوگوں نے (بلا تمیز) ہر مشکل اور آسان پر سواری (شروع) کر دی تو ہم لوگوں سے کوئی حدیث قبول نہ کی سوائے اس (حدیث) کے جسے ہم جانتے تھے۔
امام مجاہد ؒ بیان کرتے ہیں، بشیر عددی ؒ، حضرت ابنِ عبّاس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور حدیثیں بیان کرتے ہوئے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگا۔ چنانچہ حضرت ابنِ عباس ؓ نے اس کی احادیث پر کان نہ دھرا، اور نہ اس کی طرف توجّہ کی تو اس نے کہا: اے ابنِ عباس! کیا وجہ ہے کہ آپ میری احادیث سنتے ہی نہیں ہیں، جب کہ میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنا رہا ہوں اور آپ سنتے ہی نہیں۔ تو ابنِ عباس ؓ نے کہا: ”کبھی یہ تھا، جب ہم کسی آدمی کو یہ کہتے سنتے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تو ہماری آنکھیں اس کی طرف لپکتیں (فوراً اس کی طرف اٹھتیں)، اور ہم اس کی باتوں پر کان لگاتے، مگر جب لوگوں نے دشوار اور نرم (ضعیف اور صحیح) ہر راستہ پر چلنا شروع کر دیا، تو ہم لوگوں سے وہ حدیث لیتے ہیں جس کو ہم پہچانتے ہیں، جن کی صحت کا ہمیں علم ہے، یا جن کو ہم صحیح خیال کرتے ہیں۔