ابو وائل نے کہا: ہمارے سامنے حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا۔انتہائی مختصر اورانتہائی بلیغ (بات کی) جب وہ منبر سے اترے تو ہم نے کہا: ابویقظان! آپ نے انتہائی پر تاثیر اور انتہائی مختصر خطبہ دیاہے، کاش! آپ سانس کچھ لمبی کرلیتے (زیادہ دیر بات کرلیتے) انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: "انسان کی نماز کا طویل ہونا اوراس کے خطبے کاچھوٹا ہونا اس کی سمجھداری کی علامت ہے، اس لئے نماز لمبی کرو اور خطبہ چھوٹا دو، اوراس میں کوئی شبہ نہیں کہ کوئی بیان جادو (کی طرح) ہوتا ہے۔"
ابووائل بیان کرتے ہیں کہ ہمارے سامنے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ دیا۔ انتہائی مختصر اورانتہائی بلیغ (مؤثر) تو جب وہ منبر سے اترے ہم نے کہا: اے ابویقظان! آپ نے انتہائی بلیغ (پر تأثیر) اور انتہائی مختصر خطبہ دیا ہے، اے کاش! آپ کچھ لمبا خطبہ دیتے، انھوں نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”انسان کی نماز کی طوالت اور اس کے خطبہ کا چھوٹا ہونا اس کی فقاہت (سوجھ بوجھ) کی علامت ہے۔ اس لئے نماز کو طویل کرو اور خطبہ چھوٹا دو، اور بلاشبہ بعض بیان جادو کی تأثیر رکھتے ہیں“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2009
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) تنفست: آپ سانس لیتے، یعنی خطبہ کچھ لمبا کرتے تو یہ بہتر ہوتا۔ (2) مئنة: میم پر زبر ہے اور ہمزہ پر زیر ہے اور نون مشدد ہے۔ علامت، جس سے کسی چیز کی پہچان اور شناخت ہوتی ہے۔ (3) إِنَّ مِنَ الْبَيَان سحرًا: بعض بیان جادو اثر ہوتے ہیں، یعنی جس طرح جادو فوری طور پر اثر کرتا ہے اسی طرح بعض بیان اس قدر بلیغ اور مؤثر ہوتے ہیں کہ سامع ان کا فوری اثر قبول کرتا ہے اور اس کا دل خطیب کی گرفت میں ہوتا ہے وہ جدھر چاہے اسے مائل کر دے۔ اس خطیب نے یہ کام احقاق حق اور ابطال باطل کے لیے کیا تو قابل تعریف ہے اور اگر حق کے خلاف باطل کی تائید میں کیا ہے تو قابل مذمت ہے۔ بہرحال وہ جادو کی طرح مؤثر ہر صورت میں ہے۔ فوائد ومسائل: 1۔ طوالت نماز۔ نماز کا تعلق اپنے خالق اور مالک سے ہے جو اس کی یاد اور اس سے راز ونیاز پر مشتمل ہے۔ اس لیے اس میں ہرانسان فرداً فرداً حصہ لیتا ہے۔ اور اس میں ہر ایک دلچسپی کا سامان ہے۔ اس لیے اس میں طمانیت اور تسکین واعتدال کی ضرورت ہے اور نماز میں طوالت کی ضرورت ہے۔ لیکن اس قدر نہیں کہ مقتدیوں کے لیے مشقت اورکلفت کا باعث بنے۔ 2۔ خطبہ میں اختصار۔ خطبہ کا تعلق لوگوں سے ہے، خطیب ان کو مخاطب کرتا ہے۔ ہرانسان کا اس میں دخل نہیں ہے۔ اور خطیب کی خوبی اور کمال یہ ہے کہ اس کی بات جامع، مؤثر اور مختصر ہو۔ اس میں طول بیانی سے کام نہ لیا گیا ہو۔ لیکن اصل وضع کے اعتبار سے چونکہ خطیب اس میں اپنی ٹھلانت لسانی اور زور بیان کا اظہار کرتا ہے اس لیے یہ طویل اور لمبا ہوتا ہے۔ اس لیے جمعہ کا خطبہ عام خطبوں سے مختصر رکھا گیا ہے۔ کیونکہ اس کے کچھ مخصوص آداب اور احکام ہیں جن کی پابندی عام خطبوں میں نہیں ہے۔ اس لیے یہ ان کے مقابلہ میں مختصر ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کے لیے اس کے پورے آداب اور احکام کا ملحوظ رکھنا اور انتہائی توجہ اور غورسے سننا ممکن ہو سکے۔ طول بیانی میں انہماک اور توجہ کا برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی آداب واحکام کی پابندی آسان ہوتی ہے۔