حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ تین ا وقات ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں روکتے تھے کہ ہم ان میں نماز پڑھیں یا ان میں اپنے مردوں کو قبروں میں اتاریں: جب سورج چمکتا ہوا طلوع ہورہا ہو یہاں تک کہ وہ بلند ہوجائے اور جب دوپہر کو ٹھہرنے والا (سایہ) ٹھہر جاتا ہے حتیٰ کہ سورج (آگے کو) جھک جائے اور جب سورج غروب ہونے کے لئے جھکتا ہے یہاں تک کہ وہ (پوری طرح) غروب ہوجائے۔
حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تین اوقات ہیں جن میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے سے روکتے تھے اور اس سے بھی کہ ہم ان اوقات میں اپنے مردوں کو قبر میں داخل کریں جب سورج روشن ہو کر طلوع ہو رہا ہو حتی تک کہ وہ بلند ہو جائے اور جب دوپہر کو ٹھہرنے والا ٹھہر جاتا ہے یعنی زوال کے وقت حتیٰ کہ سورج ڈھل جائے اور جب سورج غروب کے لئے جھکتا ہے حتی تک کہ وہ مکمل غروب ہو جائے۔
ثلاث ساعات كان رسول الله ينهانا أن نصلي فيهن نقبر فيهن موتانا حين تطلع الشمس بازغة حتى ترتفع وحين يقوم قائم الظهيرة حتى تميل وحين تضيف الشمس للغروب حتى تغرب
ثلاث ساعات كان رسول الله ينهانا أن نصلي فيهن نقبر فيهن موتانا حين تطلع الشمس بازغة حتى ترتفع وحين يقوم قائم الظهيرة حتى تزول الشمس وحين تضيف الشمس للغروب
ثلاث ساعات كان رسول الله ينهانا أن نصلي فيهن نقبر فيهن موتانا حين تطلع الشمس بازغة حتى ترتفع وحين يقوم قائم الظهيرة حتى تميل الشمس وحين تضيف الشمس للغروب حتى تغرب
ثلاث ساعات كان رسول الله ينهانا أن نصلي فيهن نقبر فيهن موتانا حين تطلع الشمس بازغة حتى ترتفع وحين يقوم قائم الظهيرة حتى تميل وحين تضيف الشمس للغروب حتى تغرب
ثلاث ساعات كان رسول الله ينهانا أن نصلي فيهن نقبر فيهن موتانا حين تطلع الشمس بازغة حتى ترتفع وحين يقوم قائم الظهيرة حتى تميل وحين تضيف الشمس للغروب حتى تغرب
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 561
´نماز کے ممنوع اوقات کا بیان۔` عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تین اوقات ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے سے اور اپنے مردوں کو دفنانے سے منع کرتے تھے: ایک تو جس وقت سورج نکل رہا ہو یہاں تک کہ بلند ہو جائے، دوسرے جس وقت ٹھیک دوپہر ہو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، تیسرے جس وقت سورج ڈوبنے کے لیے مائل ہو جائے یہاں تک کہ ڈوب جائے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 561]
561 ۔ اردو حاشیہ: ➊امام احمد رحمہ اللہ نے ظاہر الفاظ کی بنا پر کہا ہے کہ ان تین اوقات میں میت کو دفن کرنا منع ہے، جب کہ دیگر اہل علم نے اس سے جنازہ مراد لیا ہے کیونکہ نماز سے مناسبت نماز جنازہ کی ہو سکتی ہے نہ کہ دفن کرنے کی، مگر «نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا» کے الفاظ سے دفن کے بجائے نمازجنازہ مراد لینا بعید معلوم ہوتا ہے۔ ➋سورج کا سر پر کھڑا ہونا عرفی لحاظ سے ہے ورنہ حقیقت میں سورج نہیں رکتا، بڑی تیزی سے حرکت کرتا رہتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 561
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 566
´ٹھیک دوپہر کے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت کا بیان۔` علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ تین اوقات ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے، یا اپنے مردوں کو قبر میں دفنانے سے منع فرماتے تھے: ایک جس وقت سورج نکل رہا ہو، یہاں تک کہ بلند ہو جائے، دوسرے جس وقت ٹھیک دوپہر ہو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، تیسرے جس وقت سورج ڈوبنے کے لیے مائل ہو یہاں تک کہ ڈوب جائے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 566]
566 ۔ اردو حاشیہ: مجموعی طور پر پانچ وقت، نماز کے لیے مکروہ ہیں: (1)طلوع، (2)استوا، (3)غروب، (4)بعد ازصبح، (5)بعد از عصر جبکہ سورج زردی مائل ہو چکا ہو۔ تفصیل کے لیے دیکھیے فوائد حدیث: 560۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 566
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2015
´جن اوقات میں مردوں کو دفن کرنے سے منع کیا گیا ہے ان کا بیان۔` عقبہ بن عامر جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ تین اوقات ایسے ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے (اور) اپنے مردوں کو قبر میں دفنانے سے منع فرماتے تھے: ایک جس وقت سورج نکل رہا ہو یہاں تک کہ بلند ہو جائے، اور دوسرے جس وقت ٹھیک دوپہر ہو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اور (تیسرے جس وقت سورج ڈوبنے کے لیے مائل ہو رہا ہو۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2015]
اردو حاشہ: (1) حدیث کے ظاہر الفاظ سے ان تین اوقات میں نماز پڑھنے اور میت کو دفن کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ بعض علماء نے اگرچہ اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ان اوقات میں نماز جنازہ پڑھنا منع ہے، دفن کیا جا سکتا ہے لیکن یہ تاویل بعید ہے، اس لیے بات وہی صحیح ہے جو حدیث کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتی ہے۔ اگر کوئی مجبوری ہو تو پھر ان اوقات میں دفنانے کی گنجائش ہے جیسا کہ آئندہ حدیث میں آ رہا ہے۔ (2) اس روایت سے متعلقہ دوسرے مباحث حدیث نمبر 561 اور 1896 میں گزر چکے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2015
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1519
´نماز جنازہ اور میت کی تدفین کے ممنوع اوقات کا بیان۔` عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو تین اوقات میں نماز پڑھنے، اور مردوں کو دفن کرنے سے منع فرماتے تھے: ”ایک تو جب سورج نکل رہا ہو، اور دوسرے جب کہ ٹھیک دوپہر ہو، یہاں تک کہ زوال ہو جائے یعنی سورج ڈھل جائے، تیسرے جب کہ سورج ڈوبنے کے قریب ہو یہاں تک کہ ڈوب جائے ۱؎۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1519]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) مکروہ اوقات میں جس طرح عام نماز پڑھنا مکروہ ہے اسی طرح نماز جنازہ بھی مکروہ ہے۔
(2) ان اوقات میں میت کودفن کرنے سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ سوائے اس کے کہ کوئی خاص مجبوری ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1519
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1030
´سورج نکلنے اور اس کے ڈوبنے کے وقت نماز جنازہ پڑھنے کی کراہت کا بیان۔` عقبہ بن عامر جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ تین ساعتیں ایسی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے سے یا اپنے مردوں کو دفنانے سے منع فرماتے تھے: جس وقت سورج نکل رہا ہو یہاں تک کہ وہ بلند ہو جائے، اور جس وقت ٹھیک دوپہر ہو رہی ہو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اور جس وقت سورج ڈوبنے کی طرف مائل ہو یہاں تک کہ وہ ڈوب جائے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1030]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: امام ترمذی نے بھی اسے اسی معنی پرمحمول کیا ہے جیساکہ ”ترجمۃ الباب“ سے واضح ہے، اس کے برخلاف امام ابوداؤدنے اسے دفن حقیقی ہی پرمحمول کیا اورانہوں نے ”با ب الدفن عند طلوع الشمش وعند غروبها“ کے تحت اس کو ذکر کیا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1030