شعبہ سعید اور معاذ بن ہشام نے اپنے والد کے واسطے سے قتادہ سے اسی سند کے ساتھ یہ روا یت بیان کی، البتہ سعید اور ہشام کی حدیث میں (نماز فجر کے بعد سورج طلوع ہو نے تک کے بجا ئے) "صبح کے بعد سورج چمکنے تک "کے الفاظ ہیں۔
یہی حدیث امام صاحب اپنے اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، سعید اور ہشام کی حدیث میں ہے، صبح کے بعد حتی کہ سورج روشن ہو جائے یا سورج بلند اور روشن ہو جائے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1922
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) اگر تشرق (ن) کو مجرد باب سے پڑھیں تو معنی ہو گا حتی کہ سورج نکل آئے یعنی طلوع ہونے کے معنی میں ہو گا، اگر اس کو مزید فیہ باب سے پڑھیں تو معنی ہو گا سورج روشن اور بلند ہو جائے یعنی یہ طلوع کی تفسیر اور وضاحت کر دی گئی ہے کہ محض سورج کا نکل آنا کافی نہیں ہے بلکہ اس کا بلند اور اونچا ہو جانا مقصود ہے۔ (2) وہ اوقات جن میں نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے وہ تفصیلی طور پر پانچ ہیں (1) جب سورج نکل رہا ہو (2) جب سورج غروب ہورہا ہو۔ (3) نصف النہارکے وقت جب سورج ڈھلنے کے قریب ہو (4) صبح کے بعد (5) عصر کے بعداجمالی طور پر یہ اوقات تین ہیں (1) صبح کی نماز کے بعد سے سورج نکلتے تک (2) جب سورج ٹھہرا ہوا ہو یعنی نصف النہار کے وقت (3) نماز عصر کے بعد سے سورج کے غروب ہونے تک۔ صبح کے سلسلہ میں کچھ اختلاف ہے احناف کے نزدیک اور حنبلیوں کے مشہور قول کے مطابق طلوع فجر سے سورج نکلنے تک صبح کی سنتوں اور نماز فجر کے سوا کوئی نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اور جمہور کے نزدیک صبح کی نماز کے بعد سورج کے بلند ہونے تک نفلی نماز جائز نہیں ہے اور صبح کی سنتیں اگر پہلے نہ پڑھی ہوں تو ان کو پڑھا جا سکتا ہے۔ ان کے اوقات میں نماز پڑھنے کے بارے میں آئمہ کا اختلاف(1) ظاہریہ کے نزدیک ان اوقات میں نماز پڑھنا جائز ہے اور احادیث نہی منسوخ ہیں(2) احناف مالکیہ اور حنابلہ کے ایک قول کے مطابق طواف کی رکعات کے سوا ہر قسم کے نوافل پڑھنا جائز ہے احناف کے نزدیک ان اوقات میں (طلوع غروب اور استواء) فرائض کی قضائی بھی درست نہیں ہے لیکن غروب شمس کے وقت اس دن کی عصر پڑھی جا سکتی ہے فجر کے بعد عصر کے بعد فرض نماز کی قضائی جائز ہے لیکن مالک، شافعی رحمۃ اللہ علیہ، اسحاق وغیرہم کے نزدیک ان تمام اوقات میں فرائض کی قضائی جائز ہے۔ (3) امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول کی روسے جسے حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے پسند کیا ہے ان اوقات میں سببی نماز یعنی جس نماز کا سبب اور علت موجود ہو، جیسے فوت شدہ نماز کی قضاء، تحیۃ الوضوء، تحیۃ المسجد، سجود التلاوۃ، صلاۃ الکسوف اور صلوۃ الجنائز یہ جائز ہیں اور صحیح موقف یہی ہے لیکن سورج کے نکلتے وقت سورج کے غروب ہوتے وقت اور سورج کے استواء کے وقت شعوری طور پر نماز پڑھنا درست نہیں ہے کیونکہ چند منٹ انتظار کر لینا کوئی مشکل نہیں ہے وہاں اس دن کی نماز فجراگر ایک رکعت سورج نکلنے سے پہلے پڑھ سکتا ہو، اس طرح اس دن کی عصر اگر سورج کے غروب سے ایک رکعت پہلے پڑھ سکتا ہو تو پھران کا پڑھنا صحیح احادیث کی روسے جائز ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سورج کے استواء کے وقت نماز پڑھنا جائز ہے۔ وہ اس کو منھی عنہ اوقات میں شمار نہیں کرتے، لیکن باقی آئمہ کے نزدیک صحیح مسلم کی روایت کے مطابق یہ بھی ممنوع اوقات میں داخل ہے۔ علامہ سعیدی احناف کا موقف ان الفاظ میں لکھتے ہیں ”طلوع آفتاب، غروب آفتاب اور آفتاب کا استواء جس کو عرف عام میں زوال کہتے ہیں ان اوقات میں نماز پڑھنا ناجائز ہے خواہ نماز فرض ہو یا نفل اداء یا قضاء اور طلوع فجر سے طلوع شمس تک اور نماز عصر کے بعد سے غروب شمس تک ان اوقات میں نفل پڑھنا مکروہ ہےقضاءنماز، نماز جنازہ، سجدہ تلاوت اور نماز طواف ان اوقات میں بلا کراہت جائز ہیں۔ (شرح صحیح مسلم، ج 2 ص611)