ابو خثیمہ نے ابو اسحاق سے اور انھوں نے حضرت بر اء رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: ایک آدمی سورہ کہف کی تلاوت کررہاتھا اور اس کے پاس ہی دو رسیوں میں بندھا ہواگھوڑا (موجود) تھا۔تو اسے ایک بدلی نے ڈھانپ لیا۔
حضرت بر اء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ، ایک آدمی سورہ کہف کی تلاوت کر رہا تھا اور اس کے پاس دو لمبی رسیوں میں بندھا ہوا گھوڑا کھڑا تھا، اسے ایک بدلی نے ڈھانپ لیا اور وہ بدلی گھومنے اور قریب آنے لگی اور اس کا گھوڑا اس سے بدکنے لگا، جب صبح ہوئی تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ماجرا سنایا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ سکینت تھی، جوقرآن کی قرآت کی بنا پر اتری۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1856
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: شَطَنٌ: طویل اور لمبی رسی کو کہتے ہیں، جس سے گھوڑا باندھا جاتا ہے۔ فوائد ومسائل: سکینت اطمینانِ قلب اور دلی سکون کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی رحمت کا نتیجہ ہے اور قرآن کی قرآءت اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سبب ہے اور اس حدیث میں اس کو ایک شکل دی گئی ہے اس لیے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے سکینہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے جو طمانیت اور رحمت کا باعث بنتی ہےاور اس کے ساتھ فرشتے ہوتے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1856
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3614
3614. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک شخص نے سورہ کہف پڑھی تو ان کے گھر میں باندھا ہوا ایک جانور(گھوڑا) بدکنےلگا۔ اس پر اس نے سلامتی کی دعا کی تو اچانک اس کے سر پر ایک ابرسایہ کیے ہوئے تھا۔ انھوں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیاتو آپ نے فرمایا: ”اے شخص!تو پرھتا ہی رہتا کیونکہ یہ تو ایک طمانیت تھی جو قرآن پڑھنے کی بدولت اتری تھی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3614]
حدیث حاشیہ: ہردو کا مفہوم ایک ہی ہے۔ سکینہ کی تشریح کتاب التفسیر میں آئے گی إن شاءاللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3614
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4839
4839. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کا ایک صحابی قرآن پڑھ رہا تھا جبکہ اس کا گھوڑا بھی وہاں حویلی میں بندھا ہوا تھا۔ اچانک وہ (گھوڑا) بدکنے لگا۔ اس آدمی نے باہر نکل کر دیکھا تو اسے کچھ نظر نہ آیا لیکن گھوڑا مسلسل بدکتا رہا۔ جب صبح ہوئی تو اس نے نبی ﷺ کے سامنے تذکرہ کیا۔ آپ نے فرمایا: ”یہ تو سکینت تھی جو قرآن کی بدولت نازل ہوئی تھی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4839]
حدیث حاشیہ: دوسری روایت میں سکینت کی جگہ فرشتوں کا ذکر ہے۔ اس لئے یہاں بھی سکینت سے مراد فرشتے ہی ہیں۔ (راز)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4839
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5011
5011. سیدنا براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک آدمی سورۃ الکہف پڑھ رہا تھا اور اس کے قریب ایک جانب گھوڑا دو رسیوں سے بندھا ہوا تھا۔ اس وقت ایک بادل اوپر سے آیا اور نزدیک تر ہونے لگا، جس کی وجہ سے وہ گھوڑا اچھلنے لگا۔ جب صبح ہوئی تو اس نے نبی ﷺ سے اس واقعے کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ سکنیت تھی جو قرآن پڑھنے کے باعث نازل ہوئی تھی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5011]
حدیث حاشیہ: کہف غار کو کہتے ہیں۔ پچھلے زمانے میںچند نوجوان شرک سے بیزار ہوکرتوحید کے شیدائی بن گئے تھے مگر حکومت اور عوام نے ان کا پیچھا کیا لہٰذا وہ پہاڑ کے ایک غار میں پناہ گزیں ہوگئے۔ جن کا تفصیلی واقعہ اس سورت میں موجود ہے، اس لئے اسے لفظ کہف سے موسوم کیا گیا۔ اس سورت کے بھی بہت سے فضائل ہیں ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو مسلمان اسے ہر جمعہ کو تلاوت کرے گا اللہ اسے فتنہ دجال سے محفوظ رکھے گا۔ حدیث مذکور سے بھی اس کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5011
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3614
3614. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک شخص نے سورہ کہف پڑھی تو ان کے گھر میں باندھا ہوا ایک جانور(گھوڑا) بدکنےلگا۔ اس پر اس نے سلامتی کی دعا کی تو اچانک اس کے سر پر ایک ابرسایہ کیے ہوئے تھا۔ انھوں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیاتو آپ نے فرمایا: ”اے شخص!تو پرھتا ہی رہتا کیونکہ یہ تو ایک طمانیت تھی جو قرآن پڑھنے کی بدولت اتری تھی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3614]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس میں (سلّم) کا لفظ کے مختلف معنی حسب ذیل ہیں۔ (ا) اس آدمی نے سلامتی کی دعا کی اور اللہ کے حکم پر راضی ہو گیا۔ (ب) وہ نماز پڑھ رہا تھا تو نماز سے سلام پھیر کر فارغ ہوا۔ 2۔ اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت اسید بن حضیر ؓ کو پیش آیا جبکہ وہ رات کے وقت سورہ بقرہ پڑھ رہے تھے اور ان کے پاس ان کا بیٹا یحییٰ سویا ہوا تھا ان کی سواری بدکی تو انھوں نے تلاوت چھوڑدی اور اپنے بیٹے کی دیکھا بھال میں مصروف ہو گئے۔ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 1850) ممکن ہے مذکورہ واقعہ بھی انھی سے متعلق ہو اور وہ سورہ بقرہ اور سورہ کہف اکٹھی پڑھ رہے ہوں یا کچھ حصہ سورہ بقرہ کا اور کچھ حصہ سورہ کہف کا پڑھا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ متعدد واقعات ہوں۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن پڑھتے وقت سکینت اور طمانیت نازل ہوتی ہے اور اللہ کی رحمت پڑھنے والے کو ڈھانپ لیتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے ایک غیب کی خبر سے مطلع کیا جو علامات نبوت میں سے ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3614
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4839
4839. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کا ایک صحابی قرآن پڑھ رہا تھا جبکہ اس کا گھوڑا بھی وہاں حویلی میں بندھا ہوا تھا۔ اچانک وہ (گھوڑا) بدکنے لگا۔ اس آدمی نے باہر نکل کر دیکھا تو اسے کچھ نظر نہ آیا لیکن گھوڑا مسلسل بدکتا رہا۔ جب صبح ہوئی تو اس نے نبی ﷺ کے سامنے تذکرہ کیا۔ آپ نے فرمایا: ”یہ تو سکینت تھی جو قرآن کی بدولت نازل ہوئی تھی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4839]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ قرآن پڑھنے کی دوران میں اس آدمی کو ایک بادل نے ڈھانپ لی جو اس کے قریب ہوتا گیا۔ اس وقت اس کا گھوڑا بدکنے لگا۔ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5011) 2۔ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بادل میں جو تجھے چراغ نظر آئے تھے وہ فرشتوں کی ایک جماعت تھی جو قرآن سننے کے لیے آئے تھے اور اگر تو اپنی تلاوت کو جاری رکھتا تو وہ صبح کے وقت لوگوں سے چھپ نہ سکتے بلکہ لوگ انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے۔ “(صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5018) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ان الفاظ سے عنوان قائم کیا ہے۔ (باب نُزُولِ السَّكِينَةِ وَالْمَلائِكَةِ عِنْدَ ... قراءة القرآن) ”تلاوت قرآن کے وقت سکینت اور فرشتوں کا نازل ہونا۔ “(صحیح البخاري، فضائل القرآن، باب: 15) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوئے تھے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4839
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5011
5011. سیدنا براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک آدمی سورۃ الکہف پڑھ رہا تھا اور اس کے قریب ایک جانب گھوڑا دو رسیوں سے بندھا ہوا تھا۔ اس وقت ایک بادل اوپر سے آیا اور نزدیک تر ہونے لگا، جس کی وجہ سے وہ گھوڑا اچھلنے لگا۔ جب صبح ہوئی تو اس نے نبی ﷺ سے اس واقعے کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ سکنیت تھی جو قرآن پڑھنے کے باعث نازل ہوئی تھی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5011]
حدیث حاشیہ: 1۔ سکینت کا لفظ قرآن و حدیث میں کئی مرتبہ آیا ہے اس کی تاویل میں مختلف اقوال ہیں۔ لیکن ہمارے رجحان کے مطابق اس سے مراد کوئی اللہ کی مخلوق ہے جس میں اللہ کی طرف سے طمانیت و سکون ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ملائکہ رحمت بھی ہوتے ہیں۔ 2۔ اس سورت کے بہت سے فضائل ہیں۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرے اور پڑھے گا۔ وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔ “(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1883۔ (809) ایک دوسری روایت میں آپ نے فرمایا: ”جو شخص جمعے کے دن اس سورت کی تلاوت کرے گا۔ تو آئندہ جمعے تک اس کے لیے ایک خاص نور کی روشنی رہے گی۔ (فتح الباري: 72/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5011