الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
6. باب الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ:
6. باب: اقامت میں دو نمازوں کو جمع کرنا۔
حدیث نمبر: 1633
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ . ح. وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، وَأَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ كِلَاهُمَا، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ، فِي غَيْرِ خَوْفٍ، وَلَا مَطَرٍ "، فِي حَدِيثِ وَكِيعٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: لِمَ فَعَلَ ذَلِكَ؟ قَالَ: كَيْ لَا يُحْرِجَ أُمَّتَهُ، وَفِي حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ، قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: مَا أَرَادَ إِلَى ذَلِكَ؟ قَالَ: أَرَادَ أَنْ لَا يُحْرِجَ أُمَّتَهُ.
ابو معاویہ اور وکیع دونوں نے اعمش سے روایت کی، انھوں نے حبیب بن ثابت سے انھوں نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر، عصر اور مغرب، عشاء کو مدینہ میں کسی خوف اور بارش کے بغیر جمع کیا۔وکیع کی روایت میں ہے (سعید نے) کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے کہا: تاکہ اپنی امت کو دشواری میں مبتلا نہ کریں اور ابو معاویہ کی حدیث میں ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا چاہتے ہوئے ایسا کیا؟انھوں نے کہا: آپ نے چاہا اپنی امت کو دشواری میں نہ ڈالیں۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں بلا خوف و خطر اور بلا بارش ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کیا، وکیع کی روایت میں ہے سعید نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا، تاکہ اپنی امت کو دشواری میں مبتلا نہ کریں اور ابو معاویہ کی حدیث میں ہے، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کیا چاہا؟ انہوں نے کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا آپصلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو دشواری نہ ہو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 705
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح مسلمجمع رسول الله بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء بالمدينة في غير خوف ولا مطر
   جامع الترمذيجمع رسول الله بين الظهر والعصر وبين المغرب والعشاء بالمدينة من غير خوف ولا مطر
   سنن أبي داودجمع رسول الله بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء بالمدينة من غير خوف ولا مطر
   المعجم الصغير للطبرانيجمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1633 کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 1633  
فوائد و مسائل:
➋ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی کا بیان ہے:
«صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة ثمانيا جميعا، وسبعا جميعا، الظهر والعصر، والمغرب والعشاء .»
میں نے مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں ظہر و عصر کی آٹھ رکعات اور مغرب و عشا کی سات رکعات جمع کر کے پڑھیں۔ [صحيح البخاري: 543، 1174، صحيح مسلم: 55/705]
◈ شیخ الاسلام، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماتے ہیں:
«والجمع الذى ذكره ابن عباس لم يكن بهذا ولا بهذا، وبهذا استدل أحمد به على الجمع لهذه الأمور بطريق الأولى، فإن هذا الكلام يدل على أن الجمع لهذه الأمور أولى، وهذا من باب التنبيه بالفعل، فانه اذا جمع ليرفع الحرج الحاصل بدون الخوف والمطر والسفر، فالخرج الحاصل بهذه أولى أن يرفع، والجمع لها أولى من الجمع لغيرها.»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جس جمع کا ذکر کیا ہے، وہ نہ خوف کی وجہ سے تھی، نہ بارش کی وجہ سے۔ اسی حدیث سے امام احمد رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ خوف اور بارش میں تو بالاولیٰ جمع ہو گی. اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان امور میں نمازوں کو جمع کرنا بالاولیٰ جائز ہے۔ یہ تنبیہ بالفعل کی قبیل سے ہے . جب خوف، بارش اور سفر کے بغیر جو مشقت ہوتی ہے، اس مشقت کو ختم کرنے کے لیے دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، تو ان اسباب کی مشقت کو ختم کرنا تو بالاولیٰ جائز ہو گا، لہٰذا خوف، بارش اور سفر کی بنا پر نمازوں کو جمع کرنا دیگر امور کی بنا پر جمع کی نسبت زیادہ جائز ہو گا۔ [مجموع الفتاوي: 76/24]

◈ محدث العصر، علامہ البانی رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول «فى غير خوف ولا مطر» کی شرح میں فرماتے ہیں:
«فإنه يشعر أن الجمع للمطر كان معروفا فى عهدم صلى الله عليه وسلم، ولو لم يكن كذلك، لما كان ثمة فائدة من نفي المطر كسبب مبرر للجمع، فتامل»
یہ الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بارش کی وجہ سے نمازوں کو جمع کرنا معروف تھا۔ غور فرمائیے! اگر ایسا نہ ہوتا، تو بارش کو جمع کے جواز کے سبب کے طور پر ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ [ارواءالغليل: 3 40]
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 61-66، حدیث/صفحہ نمبر: 238   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1211  
´دو نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں بلا کسی خوف اور بارش کے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھا، ابن عباس سے پوچھا گیا: اس سے آپ کا کیا مقصد تھا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ اپنی امت کو کسی زحمت میں نہ ڈالیں ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1211]
1211۔ اردو حاشیہ:
جمہور علمائے حدیث کا اس سے استدلال یہ ہے کہ خوف، بارش اور مرض کے علاوہ اگر کبھی کوئی شخص کس معقول عذر اور وجہ سے نمازیں اکھٹی پڑھے تو جائز ہے، مگر عادت نہ بنائے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسوہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1211   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 187  
´حضر (اقامت کی حالت) میں دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر خوف اور بارش ۱؎ کے مدینے میں ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کیا ۲؎۔ ابن عباس رضی الله عنہما سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے کیا منشأ تھی؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشأ یہ تھی کہ آپ اپنی امت کو کسی پریشانی میں نہ ڈالیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 187]
اردو حاشہ:
1؎:
ابو داود کی روایت میں ((فِيْ غَيْرِخَوْفٍ وَلَا سَفَرٍ)) ہے،
نیز مسلم کی ایک روایت میں بھی ایسا ہی ہے،
خوف،
سفر اور مطر (بارش) تینوں کا ذکر ایک ساتھ کسی روایت میں نہیں ہے مشہور ((مِنْ غَيْرِخَوْفٍ وَلَا سَفَرٍ)) ہے۔

2؎:
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا بوقت ضرورت حالت قیام میں بھی جائزہے،
لیکن اسے عادت نہیں بنا لینی چاہئے۔

3؎:
جسے امام ترمذی آگے نقل کر رہے ہیں،
لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے،
اس لیے دونوں حدیثوں میں تعارض ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں،
اور نہ اس حدیث سے استدلال جائز ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 187