) یونس نے ابن شہاب کے حوالے سے خبردی، انھوں نے سعید بن مسیب سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ خیبر سے واپس ہوئے تو رات بھر چلتے رہے یہاں تک کہ جب آپ کو نیند نے آلیا، آپ نے (سواری سے) اتر کر پڑاؤ کیا اور بلال رضی اللہ عنہ سے کہا: ”ہمارے لیے رات کا پہرہ دو (نظر رکھو کہ کب صبح ہوتی ہے؟)“ بلال رضی اللہ عنہ نے مقدور بھر نماز پڑھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سو گئے۔ جب فجر قریب ہوئی تو بلال رضی اللہ عنہ نے (مطلع) فجر کی طرف رخ کرتے ہوئے اپنی سواری کے ساتھ ٹیک لگائی، جب وہ ٹیک لگائے ہوئے تھے تو ان پر نیند غالب آگئی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے نہ بلال اور نہی ہی ان کے صحابہ میں سے کوئی بیدار ہوا یہاں تک کہ ان پر دھوپ پڑنے لگی، سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے اور گھبرا گئے۔ فرمانے لگے: ”اے بلال!“ تو بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: میری جان کو بھی اسی نے قبضے میں لیا تھا جس نے۔میرے ماں باپ آپ پر قربان اے اللہ کے رسول! ---آپ کی جان کو قبضے میں لے لیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سواریاں آگے بڑھاؤ۔“ وہ اپنی سواریوں کو لے کر کچھ آگے بڑھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انھوں نے نماز کی اقامت کہی، پھر آپ نے ان کو صبح کی نماز پڑھائی، جب نماز ختم کی تو فرمایا: ” جو شخص نماز (پڑھنا) بھول جائے تو جب اسے یاد آئے اسے پڑھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” میری یاد کے وقت نماز قائم کرو۔“ یونس نے کہا: ابن شہاب سے ”للذکرٰی“(یاد کرنے کےلیے) پڑھتے تھے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ خیبر سے واپس لوٹے۔ ایک رات چلتے رہے حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم پر نیند غالب آ گئی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: تم آج رات ہماری حفاظت کرو۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب تک اللہ کو منظور رہا نفل پڑھتے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی سو گئے۔ جب صبح کا وقت آ گیا تو بلال ؓ فجر پھوٹنے کی (جگہ) کی طرف رخ کر کے اپنی سواری کو ٹیک لگا کر بیٹھ گئے تو بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اس کی آنکھیں غالب آ گئیں کیونکہ وہ سواری کو ٹیک لگائے ہوئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، بلال اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی بیدار نہ ہوا حتیٰ کہ ان پر دھوپ پڑنے لگی۔ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھبرا کر فرمایا: ”اے بلال!“ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ میری روح کو اس ذات نے پکڑ لیا، جس نے آپ کی روح کو قبضے میں کرلیا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوچ کرو“ تو صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اپنی سواریوں کو تھوڑا سا چلایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا۔ انہوں نے نماز کا اہتمام کیا (اذان اور اقامت کہی) آپصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی۔ نماز پڑھنے کے بعد فرمایا: جو نماز بھول جائے، وہ یاد آتے ہی پڑھ لے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”میری یاد کے لیے نماز پڑھئے“(طٰہٰ: ۱۴) ابن شہاب، ذِکرِي (میری یاد کے لیے) کی بجائے لِلذِّکرٰی (یاد آنے پر) پڑھتے تھے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1560
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےبڑے پُراعتماد ہو کر یہ دعوی کیا تھا کہ آپ سو جائیں۔ میں آپ کو بیدار کروں گا۔ معلوم ہوتا ہے إن شاء اللہ نہیں کہا۔ اس لیےحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپﷺ کے ساتھیوں کی طرح، ان پر بھی نیند نے غلبہ پا لیا اور جب دھوپ سے آپﷺ سب سے پہلے بیدار ہوئے تو آپﷺ کو نماز کے قضاء ہونے پر افسوس ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا تم نے یہ کیا کیا؟ انہوں نے معذرت کی کہ میں نے عمداً ایسے نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کو ایسے ہی منظور تھا تو آپﷺ نے اس غفلت کا باعث بننے والی زمین کو چھوڑنے کا حکم دی اور آگے چل کر سب سے پہلے نماز کا اہتمام فرمایا۔ اسی لیے قضا شدہ نماز کو جتنا جلدی ممکن ہو پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حتیٰ الوسع ایسی جگہوں سے پرہیز کرنا چاہیے جو انسان کو دینی امور سے غافل کر دیتی ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1560
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 619
´جس نماز سے آدمی سو جائے تو اسے دوسرے روز اس کے وقت پر دوبارہ پڑھنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز بھول جاؤ تو یاد آنے پر اسے پڑھ لو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: «أقم الصلاة لذكري»۱؎”نماز قائم کرو جب میری یاد آئے۔“ عبدالاعلی کہتے ہیں: اس حدیث کو ہم سے یعلیٰ نے مختصراً بیان کیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 619]
619 ۔ اردو حاشیہ: «وَأَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْرِي»[طه20: 14] اس کے ایک معنیٰ ہیں: ”مجھے یاد کرنے کے لیے نماز پڑھو۔“ دوسرا ترجمہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک قرأت میں «للذكري» بھی پڑھا گیا ہے۔ اس کے معنی ہیں: نماز یاد آنے پر، یا معنی ہیں: نصیحت حاصل کرنے کے لیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 619
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث697
´نماز کے وقت سو جائے یا اسے پڑھنا بھول جائے تو کیا کرے؟` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ خیبر سے واپس لوٹے تو رات میں چلتے رہے، یہاں تک کہ جب نیند آنے لگی تو رات کے آخری حصہ میں آرام کے لیے اتر گئے، اور بلال رضی اللہ عنہ سے کہا: ”آج رات ہماری نگرانی کرو“، چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ کو جتنی توفیق ہوئی اتنی دیر نماز پڑھتے رہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سوتے رہے، جب فجر کا وقت قریب ہوا تو بلال رضی اللہ عنہ نے مشرق کی جانب منہ کر کے اپنی سواری پر ٹیک لگا لی، اسی ٹیک لگانے کی حالت میں ان کی آنکھ لگ گئی، نہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 697]
اردو حاشہ: (1) نبی اکرم ﷺ کی نظر میں نماز کی اتنی اہمیت تھی کہ سفر میں تھکاوٹ کے موقع پر آرام کرتے ہوئے بھی یہی خیال تھا کہ نماز لیٹ نہ ہوجائے۔ اس لیے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی باقاعدہ ڈیوٹی لگا دی تاکہ فجر کی نماز بروقت پڑھی جائے۔
(2) حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے پورا اہتمام کیا۔ ایک یہ کہ بقیہ رات نماز پڑھتے رہے تاکہ نیند نہ آجائے اور پھر اذان کا وقت قریب ہوا تو بھی پوری مستعدی سے مشرق کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گئے تاکہ جونہی صبح صادق طلوع ہو اذان کہہ دیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کے ذمہ کوئی اجتماعی کام لگایا جائے اسے چاہیے کہ اس کی ادائیگی کے لیے بہتر سے بہتر انداز سے کوشش کرے۔
(3) کسی قوم یا جماعت کے سربراہ کو چاہیے کہ اگر اجتماعی کام میں کوئی خلل واقع ہوتو اس کے ذمہ دار سے باز پرس کرے تاکہ دوسرے لوگ اپنے فرائض میں کوتاہی کرنے سے اجتناب کریں۔
(4) اگر معلوم ہو کہ کام میں خلل کی وجہ ذمہ دار کی بے پرواہی یا عمداً کوتاہی نہیں تو اس کا عذر قبول کیا جائے اور اسے مزید توبیخ نہ کی جائے۔
(5) قافلہ کو اس مقام سے چلا کر کچھ دور ٹھر جانے میں یہ حکمت ہو سکتی ہے کہ سستی ختم ہو کر تمام افراد ہوشیار اور چست ہو جائیں تاکہ نماز میں نیند اور سستی کا اثر باقی نہ رہے۔
(6) قضاء شدہ نماز بھی باجماعت ادا کی جاسکتی ہے۔
(7) حدیث میں مذکورہ آیت کی دو قراءتیں ہیں اور دونوں صحیح ہیں۔ پہلی قراءت جو ہمارے ہاں رائج ہے۔ ﴿وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذکْري﴾ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کا اصل مقصد اللہ کی یاد ہے لہٰذا نماز پوری توجہ کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔ دوسری قراءت ﴿وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِلذِّکْرٰي﴾ سے زیر بحث مسئلہ کی دلیل بنتی ہے۔ اس صورت میں اس کا مطلب نصیحت کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ اور یاد کے لیے یا یاد کے وقت بھی۔ حدیث میں یہی آخری مطلب مراد ہے۔ اس سے دلیل لیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے یہ مسئلہ بیان فرمایا کہ اگر کسی وجہ کوئی شخص نماز پڑھنا بھول جائے تو یاد آتے ہی فوراً ادا کرلینی چاہیے، بلاوجہ مزید تاخیر کرنا مناسب نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 697