کہمس نے ابو نضرہ سے اور انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: بنو سلمہ نے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا، کہا: اور (مسجد کے قریب) جگہیں (بھی) خالی تھیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا:“ اے بنو سلمہ!اپنے گھروں میں رہو، تمھارے قدموں کے نشان لکھے جاتے ہیں۔” تو انھوں نے کہا: (اس کے بعد) ہمیں یہ بات اچھی (بھی) نہ لگتی کہ ہم منتقل ہو چکے ہو تے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بنو سلمہ کے لوگوں نے مسجد کے قریب آ جانے کا ارادہ کیا، کیونکہ مسجد قریب جگہیں خالی تھیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی خبر مل گئی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بنو سلمہ! ”اپنے گھروں میں رہو، تمہارے نقش قدم لکھے جاتے ہیں۔“ تو انہوں نے کہا، ہمیں پسند نہیں ہے کہ ہم منتقل ہو چکے ہوتے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1520
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) بقاع: بقعة کی جمع ہے، قطعہ زمین، زمین کا ٹکڑا۔ (2) آثَار: اثر کی جمع ہے، پاؤں کا نشان۔ فوائد ومسائل: مسجد کے قریب صرف اس غرض کے تحت جگہ لینا کہ زیادہ دور سے چل کر نہ آنا پڑے۔ درست نہیں ہے کیونکہ انسان جس قدر مسجد سے دور ہو گا اس قدر اس کو اہتمام زیادہ کرنا پڑے گا نماز کے لیے زیادہ فکرمندی زیادہ مشقت اور دور کی مسافت زیادہ وقت کی طالب ہو گی تو یہ ہر چیز اجرو ثواب اور فضیلت کا باعث ہو گی اگر اس کا سبب کوئی اور چیز ہو مثلاً مسجد کے قریب ہونے کی وجہ سے بچے مسجد میں پڑھ سکیں گے بوڑھے اور مریض کے لیے بھی جماعت کے لیے مسجد میں جانا آسان ہو گا ہمارے لیے تکبیر تحریمہ میں شرکت آسان ہو گی تو اس نیت کے تحت مسجد کے قریب آنا درست ہے۔