الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1259
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لہسن، پیاز اور گندنا کھا کر مسجد میں جانے سے منع فرمایا ہے اور اس کا سبب اس کی بدبو کو قرار دیا ہے جو انسانوں کی طرح فرشتوں کے لیے بھی اذیت اور تکلیف کا باعث ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی بھی بدبو دار چیز استعمال کرنے کے بعد مسجد میں یا لوگوں کے علمی اجتماع میں جہاں فرشتے آتے ہیں نہیں جانا چاہیے۔ اور لہسن وپیاز اور گندنا ایسی ترکاریاں ہیں، جن کا کھانا بالاتفاق جائز ہے، اس لیے آپﷺ نے بدبو کے زائل ہونے کے بعد مسجد میں آنے کی اجازت دی ہے تو وہ اشیاء جن کا استعمال ناجائز یا کم از کم مکروہ اور ناپسندیدہ ہے، جیسے حقہ، سگریٹ، بیڑا وغیرہ ان کو استعمال کرنے کے بعد مسجد میں آنے کی گنجائش کیسے نکل سکتی ہے۔ 2۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں خلیفہ کی صفات اور اسلامی امراء اور حکام کی ذمہ داری کو انتہائی جامعیت کے ساتھ بیان کر دیا ہے جس کی روشنی میں ہم اپنی حکومتوں کے امراء اور حکام کے افعال و اعمال کو پرکھ سکتے ہیں اور یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کیا یہ حکومتیں اسلامی ہیں یا نہیں؟3۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کے لیے چھ حضرات کو نامزد فرمایا تھا اور وہ یہ حضرات تھے، جن کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی تھی، یعنی عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ، طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنت کی بشارت پانے والے دس صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے ابوبکر اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہما وفات پا چکے تھے۔ اورحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا باقی سات تھے لیکن آپ نے قرابت داری کی بنا پر سعید بن زید کو ان میں داخل نہیں کیا۔ اور ان حضرات کو پابند کیا کہ تین دن کے اندر اندر اپنے میں سے کسی کا انتخاب کر لیں۔ پھر باہمی مشورے سے تیسرے خلیفہ کے طور پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چن لیا گیا اور اس کے بعد تمام لوگوں نے ان کی بیعت کر لی اور ان کے انتخاب پر انتہائی مسرت اور شادمانی کا اظہار کیا اورحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انتباہ کی بنا پر، ان لوگوں نے خاموشی اختیار کر لی جو خلافت کے لیے ان چھ حضرات کی نامزدگی پر کراہت محسوس کرتے تھے، اس لیے وہ کھل کر سامنے نہیں آ سکے، کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض اقوال سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہ لوگ تھے جو خلافت بنوہاشم کے پاس آنے کو ناپسند کرتے تھے کہ نبوت اور خلافت ایک ہی خاندان میں جمع ہو جائیں گی اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلیفہ بننے کی صورت میں خلافت بنو ہاشم کے پاس نہیں آئی تھی۔ 4۔ کلالہ کی تفسیر میں اختلاف ہے لیکن جمہور امت کے نزدیک اس سے مراد وہ میت ہے جس نے اپنے پیچھے اولاد اور والدین میں سے کسی کو نہ چھوڑا ہو یعنی اس کے وارث اس کی اولاد یا والدین نہ ہوں۔ آپ کے خواب کی یہ تعبیر جلد ہی ظاہر ہو گئی کہ آپ کو نماز فجر میں ابولؤلؤ فیروز نے تین دفعہ خنجر مارا جس کے نتیجہ میں آپ شہید ہو گئے۔