حاتم بن اسماعیل نے (ابو حزرہ) یعقوب بن مجاہد سے، انھوں ابن ابی عتیق (عبداللہ بن محمد بن عبدالرحمان بن ابی بکر صدیق) سے روایت کی، کہا: میں نے اور قاسم (بن محمد بن ابی بکر صدیق) نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس (بیٹھے ہوئے) گفتگو کی۔ قاسم زبان کی شدید غلطیاں کرنے والے انسان تھے، وہ ایک کنیز کے بیٹے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اس سے کہا: کیا بات ہے تم میرے اس بھتیجے کی طرح کیوں گفتگو نہیں کرتے؟ ہا ں، میں جانتی ہوں (تم میں) یہ بات کہاں سے آئی ہے، اس کو اس کی ماں نے ادب (گفتگو کا طریقہ) سکھایا اورتمھیں تمھاری ماں نے سکھایا۔ اس پر قاسم ناراض ہو گئے اور ان کے خلاف دل میں غصہ کیا، پھر جب انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا دسترخوان آتے دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: کہاں جاتے ہو؟ انھوں نے کہا: میں نماز پڑھنے لگا ہوں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بیٹھ جاؤ۔ انھوں نے کہا: میں نے نماز پڑھنی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بیٹھ جاؤ، دھوکےباز! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”کھانا سامنے آجائے تو نماز نہیں۔ اور نہ وہ (شخص نماز پڑھے) جس پر پیشاب پاخانہ کی ضرورت غالب آرہی ہو۔“
حضرت ابن ابی عتیق سے روایت ہے کہ میں نے اور قاسم نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک گفتگو کی اور قاسم گفتگو میں اعرابی غلطی بہت کرتے تھے کیونکہ وہ لونڈی کے بیٹے تھے، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اسے کہا، کیا بات ہے تم میرے اس بھتیجے کی طرح گفتگو نہیں کرتے ہو؟ ہاں، میں جانتی ہوں تم میں یہ بات کہاں سے آئی ہے، اس کو اس کی ماں نے ادب سکھایا (تعلیم دی) اور تجھے تیری ماں نے ادب سکھایا، اس پر قاسم ناراض ہو گیا اور حسد و کینہ کا اظہار کیا اور جب اس نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا دسترخوان آتے دیکھا تو اٹھ کھڑا ہوا، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہاں جاتے ہو؟ اس نے کہا نماز پڑھنے، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا بیٹھ جاؤ، اس نے کہا نماز پڑھتا ہوں۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: اے بے وفا! بیٹھ جا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، کھانا سامنے آ جائے تو نماز نہ پڑھو، اسی طرح پیشاب، پاخانہ روک کر نماز نہ پڑھو۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1246
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) لَحَّانَةً: اعراب میں بہت غلطی کرنے والا۔ (2) مِنْ اَيْنَ اَتَيْتَ: تجھ میں یہ اعرابی غلطی کہاں سے آئی۔ (3) اَضَبَّ: ضب (حسد و کینہ) سے ماخوذ ہے، طیش اورغصہ کا اظہار کیا۔ (4) غُدَرُ: یعنی اےبےوفا۔ (5) اَلْاَخْبَثَان: پیشاب وپاخانہ۔ (6) يُدَافِعُ: ہٹانا، دور کرنا مراد ان کو روکنا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1246
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 89
´ کیا آدمی پیشاب و پاخانہ روک کر نماز پڑھ سکتا ہے؟` «. . . فَقَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: لَا يُصَلَّى بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ وَلَا وَهُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ . . .» ”. . . میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”کھانا موجود ہو تو نماز نہ پڑھی جائے اور نہ اس حال میں پڑھی جائے جب دونوں ناپسندیدہ چیزیں (پاخانہ و پیشاب) اسے زور سے لگے ہوئے ہوں . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 89]
فوائد و مسائل: ➊ اس روایت کا ایک پس منظر ہے کہ جناب قاسم بن محمد کی والدہ ام ولد (لونڈی) تھیں اور اس کی تربیت کے اثر سے جناب قاسم کے عربی تکلم میں قدرے لحن تھا۔ اس پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں تادیب کی تو وہ کچھ خفا ہو گئے اور کھانا چھوڑ کر نماز پڑھنے لگے۔ اس پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں یہ حدیث سنائی اور امر بالمعروف کا فریضہ ادا کیا۔ ➋ خیال رہے کہ بھوک اور قضائے حاجت ایسے فطری امور ہیں جو انسان کے اپنے کنٹرول میں نہیں ہوتے۔ شریعت نے خصوصی طور پر ان سے فراغت حاصل کر لینے کا حکم دیا ہے، مگر ایسے اعمال جو انسان کے اپنے بس میں ہوں مثلاً کوئی کام ادھورا رہا ہو یا ویسے ہی ذہن پر سوار ہو تو دینی تقاضا یہ ہے کہ انسان ان امور سے اپنے آپ کو خالی الذہن کر کے نماز کی طرف متوجہ ہو اور اپنے کام یا تو قبل از نماز نمٹا لے یا بعد از نماز مکمل کرے، مثلاً سفر میں جمع بین الصلوٰتین کی رخصت موجود ہے۔ ماں کو بچہ پریشان کر رہا ہو، تو اجازت ہے کہ اسے اٹھا کر نماز پڑھ لے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 89