حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے، پھر یہ آیت: ” ہم آپ کا چہرہ آسمان کی طرف پھرتا ہوا دیکھ رہے ہیں، ہم ضرور آپ کا رخ اس قبلے کی طرف پھیر دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں، لہٰذا آپ اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیجئے۔“ بنو سلمہ کا ایک آدمی (عباد بن بشر رضی اللہ عنہ) گزرا، (اس وقت) لوگ (مسجد قباء میں) صبح کی نماز میں رکوع کر رہے تھے اور ایک رکعت اس سے پہلے پڑھ چکے تھے، اس نے آواز دی: سنو! قبلہ تبدیل کیا جا چکا ہے۔ چنانچہ وہ جس حالت میں تھے اسی میں (رکوع ہی کے عالم میں) قبلے کی طرف پھر گئے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے، پھر یہ آیت اتری: ہم آپصلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ آسمان کی طرف پھرتا ہوا دیکھ رہے ہیں تو ہم ضرورآپصلی اللہ علیہ وسلم کا رخ اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے، جسے آپصلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے ہیں (یا وہ قبلہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی تولیت میں دے دیں گے) آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیجیئے۔ (بقرة آیت:۱۴۴) بنو سلمہ کا ایک آدمی گزرا اور لوگ صبح کی نماز پڑھ رہے تھے اور وہ ایک رکعت پڑھ چکے تھے تو اس نے آواز دی خبردار! قبلہ تبدیل کیا جا چکا ہے تو وہ جس حالت میں تھے، اسی حالت میں قبلہ کی طرف پھر گئے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1180
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں نماز اس طرح پڑھا کرتے تھے کہ آپﷺ کا رخ بیت اللہ اور بیت المقدس دونوں کی طرف ہوتا تھا ہجرت کے بعد یہ صورت ممکن نہ رہی کیونکہ مدینہ منورہ سے بیت المقدس شمال کی طرف ہے اور مکہ مکرمہ جنوب کی طرف اس لیے اگر بیت المقدس کی طرف رخ کریں تو بیت اللہ کی طرف پشت ہو گی یہود کو مانوس اور قریب کرنے کے لیے رخ بیت المقدس کی طرف رکھا گیا لیکن انھوں نے اس کو قریب آنے کے بجائے الٹا مخالفت کا ذریعہ بنا لیا کہ محمدﷺ ہماری مخالفت کرتا ہے لیکن نماز میں رخ ہمارے قبلہ کی طرف کرتا ہے اور مشرکین مکہ بھی اعتراض کرتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ملت ابراہیمی کا دعویدار ہے لیکن نماز میں رخ ان کے تعمیر کردہ گھر اور قبلہ کی طرف نہیں کرتا اس لیے آپﷺ کی دلی آرزو اور خواہش یہی تھی کہ آپﷺ بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں ہجرت کے سولہ یا سترہ ماہ بعد 15 رجب 2 ہجری کو آپﷺ کو بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا ربیع الاول اور رجب 2 ہجری کو ایک شمار کر لیں تو مدت سولہ ماہ ہو گی مگر الگ الگ شمار کر لیں تو مدت سترہ ماہ ہو گی (2) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشربن براء بن معرور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے موقع پر ان کی والدہ کے پاس تعزیت کے لیے تشریف لائے تھے ان کا گھر بنو سلمہ میں تھا ظہر کا وقت وہیں ہو گیا تو آپﷺ نے بنو سلمہ کی مسجد میں ظہر کی نماز ادا کی جب آپﷺ دو رکعتیں ادا کر چکے تو قبلہ نماز ہی میں تبدیل ہو گیا اور آپﷺ آگے سے صفوں کے پیچھے آ گئے اور نماز مکمل کی اس لیے بنو سلمہ کی مسجد کو مسجد (ذِی الْقِبْلَتَیْنِ) کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ اس میں ایک ہی نماز دو قبلوں کی طرف رخ کر کے پڑھی گئی ہے اور سب سے پہلے مکمل نماز بیت اللہ کی طرف رخ کر کے مسجد نبوی میں عصر کی نماز پڑھی گئی۔ (3) حضرت عباد بن بشر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عصر کی نماز آپﷺ کے ساتھ بیت اللہ کی طرف رخ کر کے پڑھ کر گئے تو راستہ میں بنو حارثہ کی مسجد سے گزرے وہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ رہے تھے حضرت عباد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بتانے پر وہ نماز ہی میں بیت اللہ کی طرف پھر گئے اور حضرت عباد رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا کوئی اور صحابی قباء میں عمرو بن عوف کی مسجد میں صبح کی نماز میں ایک رکعت ہو جانے کے بعد پہنچے اور ان کو قبلہ کی تبدیلی سے آگاہ کیا تو انھوں نے بھی نماز ہی میں اپنا رخ تبدیل کر لیا۔ (4) جب تک انسان کو کسی شرعی حکم کا علم نہ ہو وہ اس کا مکلف نہیں ہو گا اہل قباء کو قبلہ کی تبدیلی کا علم صبح کی نماز میں ہوا اس لیے عصر، مغرب اور عشاء کی نماز انھوں نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے پڑھی اور آپﷺ نے ان کو کچھ نہیں کہا۔ (5) ایک آدمی اگر قابل اعتماد ہو تو اس کی بات پر عمل کیا جائے گا بنو حارثہ اور بنو عمرو بن عوف نے صرف ایک آدمی کی خبر پر قطعی اور یقینی قبلہ کی طرف سے رخ دوسرے قبلہ کی طرف کر لیا، کیونکہ قبلہ کی تبدیلی کی آپﷺ کی خواہش سے وہ آگاہ تھے اس لیے اس قرینہ کی بنا پر ایک آدمی کی خبر نے یقین کا فائدہ دیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1180
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1045
´غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھ رہا ہو پھر قبلے کا صحیح علم ہو جائے تو کیا کرے؟` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ رہے تھے، جب آیت کریمہ: «فول وجهك شطر المسجدالحرام وحيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره»”یعنی اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیں اور آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں“(سورۃ البقرہ: ۱۵۰) نازل ہوئی تو قبیلہ بنو سلمہ کا ایک شخص لوگوں کے پاس سے ہو کر گزرا اس حال میں کہ وہ لوگ نماز فجر میں رکوع میں تھے اور بیت المقدس کی طرف رخ کئے ہوئے تھے تو اس نے انہیں دو بار آواز دی: لوگو! آگاہ ہو جاؤ، قبلہ کعبہ کی طرف بدل دیا گیا ہے (یہ حکم سنتے ہی) لوگ حالت رکوع ہی میں کعبہ کی طرف پھر گئے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1045]
1045۔ اردو حاشیہ: ➊ اسلام میں احکام کا نسخ ثابت ہے اور جب تک اس کا علم نہ ہو جائے کوئی اس کا مکلف نہیں ہوا کرتا۔ ➋ کسی قابل اعتماد فرد واحد کی خبر بھی قابل قبول ہوتی ہے، جسے اصطلاحاً خبر واحد کہتے ہیں۔ ➌ لاعلمی میں اگر قبلہ کی طرف نماز پڑھ لی گئی ہو تو وہ صحیح ہے۔ ➍ ضرورت کے پیش نظر نمازی کو حالت نماز میں وہ شخص تعلیم دے سکتا ہے، جو نماز نہ پڑھ رہا ہو۔ ➎ ایسی تعلیم سے نمازی کی نماز خراب نہیں ہوتی۔ «والله اعلم»
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1045