قرہ بن خالد نے ابوجمرہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شعبہ کی (سابقہ روایت کی) طرح حدیث بیان کی (اس کے الفاظ ہیں:) رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اس نبیذ سے منع کرتا ہوں جو خشک کدو کے برتن، لکڑی سے تراشیدہ برتن، سبز مٹکے اور تارکول ملے برتن میں تیار کی جائے (اس میں زیادہ خمیر اٹھنے کا خدشہ ہے جس سے نبیذ شراب میں بدل جاتی ہے۔)“ ابن معاذ نے اپنے والد کی روایت میں اضافہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد القیس کے پیشانی پر زخم والے شخص (اشج) سے کہا: ”تم میں دو خوبیاں ہیں جنہیں اللہ پسند فرماتا ہے: عقل اور تحمل۔“
ابو جمرہ ؒ ابنِ عباس رضی اللہ عنھما کی یہ مرفوع حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: میں تمھیں اس نبیذ سے منع کرتا ہوں جو دباء (تونبہ لکڑی کے تراشیدہ برتن) سبز مٹکے اور تار کول ملے برتن میں تیار کیا جائے۔ ابنِ معاذ ؒ نے اپنے باپ کی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد القیس کے اشج سے فرمایا: ”تم میں دو خوبیاں ایسی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے:"عقل و سمجھ داری اور ٹھہراؤ و وقار۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 17
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخرجه في الحديث قبل السابق برقم (115)»
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 117
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) الْحِلْم: عقل ودانائی اور تحمل و بردباری۔ (2) الأناة: ٹھہراؤ، یا وقار، جلد بازی سے پرہیز۔ (3) أشَجّ: جس کی پیشانی پر زخم ہو۔ فوائد ومسائل: 1- اشج کی تعریف کا پس منظر: جب عبد القیس کا وفد مدینہ پہنچا تو یہ لوگ فورا رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے، مگر اشج سامان کے پاس رک گیا، سب سامان اکٹھا کیا، اونٹ کو باندھا، پھر کپڑے تبدیل کیے، اس کے بعد آپ (ﷺ) کے پاس پہنچا، آپ نے اسے قریب بلایا، اپنے پہلو میں بٹھایا اور یہ الفاظ کہے کہ تم میں دو ایسی خوبیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں یہ دونوں خوبیاں تمام خوبیوں کی جڑ اور اصل ہیں۔ (2) مثلہ اور نحوہ میں فرق: مثل میں الفاظ قریبا یکساں ہوتے ہیں اور نحوہ میں الفاظ میں فرق ہوتا ہے معنی یکساں ہوتا ہے۔