47. باب: نمازی کا سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا استحباب، اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنا، اور گزرنے والے کا حکم اور گزرنے والے کو روکنا، نمازی کے آگے لیٹنے کا جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کا حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کا بیان۔
ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابن نمیر نے کہا: ہمیں ابو خالد احمر نے عبید اللہ سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (کبھی کبھی) اپنی سواری کو سامنے رکھتے ہوئے نماز پڑھ لیتے تھے۔ اور (محمد) بن نمیر نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کو سامنے رکھتے ہوئے (قبلہ رو ہو کر) نماز پڑھی۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لیتے تھے اور ابن نمیر نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ یا اونٹنی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1118
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) بعير: اطلاق، انسان کی طرح مؤنث اور مذکر دونوں کے لیے ہے، اور جمل: رجل کی طرح مذکر کے لیے ہے اور(2) نَاقَة: مرأة کی طرح مؤنث کے لیے ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1118
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:507
507. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنی سواری کو چوڑائی میں بٹھا دیتے پھر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ (نافع کہتے ہیں:) میں نے عرض کیا: اچھا یہ بتایے کہ اگر سواری کے اونٹ اپنی جگہ سے اٹھ جاتے تو آپ کیا کرتے تھے؟ ابن عمر ؓ نے فرمایا: اس صورت میں آپ پالان کو اپنے سامنے کھڑا کر لیتے اور اس کی پچھلی لکڑی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے۔ اور ابن عمر ؓ کا بھی یہی عمل تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:507]
حدیث حاشیہ: 1۔ حیوان کو سترہ بنانے کے متعلق بعض ائمہ کرام سے کراہت منقول ہے کہ سترے کا مقصد نماز کا تحفظ ہے، لیکن حیوان پر کیا بھروسا کہ وہ کب اٹھ کر چل دے۔ لیکن امام بخاری ؒ کے نزدیک سترے کے معاملے میں نمازی کے لیے پورا توسع ہے۔ وہ ہرچیز کو سترہ بنا سکتا ہے۔ وہ چیز از قسم حیوان ہو یا غیر حیوان، انھوں نے عنوان میں چار چیزوں کا ذکر کر کے توسع کا اظہار فرما دیا، لیکن روایت میں سواری اور پالان کا ذکر ہے، درخت اور اونٹ کا ذکر نہیں۔ لیکن اونٹ اور اونٹنی تو ایک ہی جنس کے دو نام ہیں، جب سواری کی اونٹنی کو سترہ بنایا جا سکتا ہے تو اس سے اونٹ کا حکم بھی معلوم ہوگیا۔ رہا درخت کا معاملہ تو وہ اس طرح ثابت ہے کہ جب لکڑی پالان کو سترہ بنانا درست ہے تو اس سے لکڑی کی ہرجنس کا حکم معلوم ہوگیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ نے اپنی عادت کے مطابق عنوان میں ان روایات کی طرف اشارہ کر دیا ہو جن میں صراحت کے ساتھ اونٹ اور درخت کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا ذکر ہے، چنانچہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اونٹ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 692) اسی طرح حضرت علی ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ بدر والی رات دیکھا کہ ہم میں سے ہر شخص سو گیا تھا، مگر رسول اللہ ﷺ ایک درخت کو سترہ بنا کر نماز پڑھ رہے تھے اور آپ صبح تک دعا میں مشغول رہے۔ (السنن الکبریٰ للنسائي، أبواب السترة، حدیث: 823) 2۔ حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ آپ اونٹ کو سترہ بنا کر نماز پڑھنے کو مکروہ خیال کرتے تھے، ہاں! اگر اس پر پالان ہوتا تواس میں کوئی حرج خیال نہ کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس پر پالان ہونے کی صورت میں وہ آرام اورسکون سے بیٹھا رہتا ہے جبکہ اس کے بغیر اس کے مستی میں آ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ فقہاء نے پالان کی پچھلی لکڑی کو کم از کم سترے کی مقدار قراردیا ہے، اس کی اونچائی ایک ذراع یا 2 بٹے 3 ذراع ہوتی ہے، لیکن مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کے اونٹ پرجو پالان ہوتا تھا، اس کی پچھلی لکڑی ایک ذراع کے برابر تھی۔ (فتح الباري: 751/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 507