سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین سے جہاد کے لئے نکلے تو میرے والد نے (مجھ سے) کہا کہ تم دیگر مدینہ والوں کی طرح دیکھ بھال کرنے والوں میں رہو تو کوئی مضائقہ نہیں یہاں تک کہ تمہیں پتہ چل جائے کہ ہمارا معاملہ کہاں تک پہنچتا ہے، اللہ کی قسم اگر مجھے اپنے بعد اپنی بیٹیوں کی فکر نہ ہوتی تو میں پسند کرتا کہ تم میرے سامنے شہید کر دیئے جاؤ، اسی اثناء میں کہ میں اہل خانہ کی دیکھ بھال کرنے والوں میں سے تھا کہ میری پھوپھی میرے والد اور ماموں کو لے کر آئیں تاکہ ان دونوں کو ہمارے قبرستان میں دفن کر دیں کہ ایک شخص ندا دیتا آیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ ”شہیدوں کو واپس لاؤ اور جہاں وہ شہید ہوئے ہیں وہیں انہیں دفن کیا جائے“، لہذا ہم نے انہیں وہیں لوٹا دیا اور جہاں وہ شہید ہوئے تھے وہیں انہیں دفن کر دیا، (وقت گزرتا گیا) جب معاویہ بن ابی سفیان کا دور خلافت آیا تو میرے پاس ایک شخص آیا اور کہا: اے عبداللہ کے بیٹے جابر! تمہارے والد پر سے معاویہ کے کارندوں نے مٹی ہٹائی اور وہ ظاہر ہو گئے اور ان میں سے ایک حصہ ظاہر ہو گیا ہے، میں اس کی طرف گیا تو انہیں بالکل ویسا ہی پایا جیسے انہیں دفن کیا تھا، کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ میں نے پھر انہیں مٹی میں چھپا دیا۔ اور میرے باپ نے اپنے اوپر کھجور کا قرض چھوڑا تھا اور کچھ قرض دینے والوں نے مجھ پر تقاضے میں بڑی سختی کی لہٰذا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے والد فلاں دن شہید ہو گئے اور انہوں نے کچھ کھجوروں کا قرض چھوڑا ہے اور کچھ قرض دینے والوں نے قرض واپس لینے کے لیے سختی کی ہے لہذا میں چاہتا ہوں کہ آپ میری مدد فرمائیں تاکہ وہ مجھے کچھ کھجور کے لئے آئندہ کٹائی تک کے لئے مہلت دے دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھیک ہے میں ان شاء اللہ دوپہر تک تمہارے پاس آؤں گا۔“ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے حواریین کے تشریف لائے اور سائے میں بیٹھ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے اپنی بیوی کو بتا دیا تھا کہ دوپہر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں گے، لہٰذا پردے میں رہنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے گھر میں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچنے دینا، اور نہ تم ان سے کوئی بات کرنا، چنانچہ اس نے بستر اور تکیہ لگا دیا، آپ سر رکھ کر سو گئے تو میں نے اپنے غلام سے کہا بکری کا یہ بچہ ذبح کر دو جو پالتو، بہت تندرست، تیز رو، پھرتیلا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیدار ہونے سے پہلے اس سے فارغ ہو جاؤ، لہٰذا ہم دونوں اس میں لگ گئے اور فارغ بھی ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے، میں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیدار ہوتے ہیں تو پانی طلب کرتے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ جب منہ ہاتھ دھو لیں تو چلے نہ جائیں، اس لئے جب تک آپ منہ دھوئیں وہ بکری کا بچہ آپ کے سامنے پیش کر دیا جائے، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو فرمایا: ”جابر پانی لاؤ“، کہا: حاضر ہے اور آپ وضو سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ آپ کے سامنے وہ مسلم بکری کا بچہ پیش کر دیا گیا۔ آپ نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”شاید تمہیں معلوم ہے کہ گوشت ہمیں پسند ہے؟ جاؤ ابوبکر کو بھی بلا لاؤ“ اور آپ کے ساتھ جو آپ کے صحابہ آئے تھے انہیں بھی بلا لیا اور کھانا منگا کر رکھا گیا، آپ نے اپنا دست مبارک اس پر رکھا اور فرمایا: ”الله کا نام لے کر کھانا شروع کرو“ چنانچہ ان سب نے خوب شکم سیر ہو کر کھانا تناول کیا اور اس میں سے بہت سارا گوشت بچ بھی گیا اور الله کی قسم بنوسلمہ کی بیٹھک کے لوگ ان کو دیکھ رہے تھے، یہ ان کی نظر میں زیادہ اچھا تھا وہ اس لئے قریب نہیں آۓ کہ مبادا آپ کو تکلیف نہ ہو۔ پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کھڑے ہوئے اور ان کے پاس سے ہٹ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے جاتے تھے: ”میری پشت فرشتوں کے لئے چھوڑ دو“، میں دروازے کی چوکھٹ تک ان کے پیچھے گیا کہ میری بیوی نے باپردہ سر نکالا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میرے اور میرے شوہر کے لئے دعا فرما دیجئے، آپ نے دعا کی ”اللہ تمہارے لئے اور تمہارے شوہر کے لئے رحمت و برکت نازل فرمائے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فلاں شخص کو بلاؤ“، وہی جس نے مجھ سے اپنا قرض مانگنے میں سختی کی تھی اور اس سے کہا: جابر کو کچھ مہلت دے دو اس کے باپ کے اوپر جو قرض تھا اس میں سے کچھ آئندہ کٹائی کے وقت لے لینا، اس نے جواب دیا نہیں یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا، عذر یہ پیش کیا کہ یہ یتیموں کا مال ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جابر کہاں ہے؟“ عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں یہاں موجود ہوں، آپ نے فرمایا: ”(جو کچھ تمہارے پاس ہے) ان کو تول کر دے دو، اللہ تعالی پورا کرائے گا،“ آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا تو سورج ڈھل رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر چلو نماز کے لئے“ چنانچہ سب لوگ نماز کے لئے روانہ ہو گئے، میں نے اپنے قرض خواہ سے کہا: لاؤ اپنا برتن قریب لاؤ اور میں نے عجوہ کھجور تولنی شروع کی تو اللہ نے پوری بھی کرا دی اور قرض کے بعد کافی ساری بچ بھی گئی۔ میں دوڑتا ہوا گویا کہ میں آگ سے اڑنے والا شرارہ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد آیا، دیکھا کہ آپ نماز سے فارغ ہو چکے ہیں، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے اپنے قرض خواہ کے لئے عجوہ کھجوریں تولیں تو وہ نہ صرف پوری ہو گئیں بلکہ کافی ساری بچ بھی گئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر بن الخطاب کدھر ہیں؟“، چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”جابر سے ان کے قرض خواہ اور کھجوروں کے بارے میں دریافت کرو“، انہوں نے جواب دیا جب مجھے معلوم ہے کہ آپ نے ان کے لئے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اسے پورا فرما دے تو پھر پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں (یعنی یقیناً اللہ نے اس سے قرض پورا ادا کروا دیا ہو گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ان سے یہی کہا اور تینوں بار انہوں نے یہی جواب دیا کہ مجھے یہ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ تین بار سے زیادہ کسی بات کو لوٹاتے نہیں تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمہارے قرض مانگنے والے نے کیا کیا اور تمر کھجور کا کیا بنا؟“ عرض کیا: الله تعالی نے قرض کی مقدار پوری فرما دی اور بہت سی کھجوریں بچی رہ گئیں۔ پھر میں اپنے گھر واپس آیا اور بیوی سے کہا: میں نے تم سے منع نہیں کیا تھا کہ میرے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات نہ کرنا؟ تو اس (نیک بخت) نے جواب دیا: آپ کا کیا خیال ہے الله تعالی میرے گھر میں اپنے نبی کو بھیجے اور آپ واپس تشریف لے جائیں اور میں اپنے اور آپ کے لئے دعا کی بھی درخواست نہ کروں؟ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 46]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 46] » اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کو [امام أحمد 397/3] و امام حاکم نے [مستدرك 110/4] میں اور ابویعلی نے [مسند 2077] میں اور ابن حبان نے [صحيح 916] میں روایت کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 46) اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا رسول اور اللہ کے برگزیدہ بندہ ہونا ثابت ہوا، ادھر دعا کی ادھر شرف قبولیت۔ ❀ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور ایمان و یقین، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کیسے فرماتے ہیں کہ جب مجھے معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور مستجاب الدعوة ہیں تو مجھے یقین ہے کھجوروں میں برکت ہوئی ہو گی، اور یہ معجزہ ضرور ظہور پذیر ہوا ہو گا۔ ❀ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی بیوی کا منع کئے جانے کے باوجود دعا کے لئے درخواست کرنا شوہر کی نافرمانی نہیں تھی، اس طرح جب اس نیک کام کے لئے شوہر کے حکم کی پیروی نہ کرے تو اس سے مواخذہ نہ ہو گا۔ ❀ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شہید کے جسم کو مٹی گلاتی نہیں، وہ ایسا ہی قیامت تک رہے گا، اور یہ اللہ کے راستے میں شہید ہونے والے مومن بندے کی توقیر و عظمت ہے۔ ❀ «وَكَانَتْ سَتِيرَةً» سے واضح ہوا کہ صحابیات پردہ کرتی اور چہرہ چھپاتی تھیں۔ ❀ اس حدیث میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی غیرت و حمیت دیکھئے کہ اشرف الکائنات سید ولد آدم کے سامنے آنے سے اپنی بیوی کو روکتے ہیں، اور وہ باپردہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتی ہیں، آج کے مسلمانوں کی بے غیرتی دیکھئے کہ بلاحجاب، بے پردہ اپنی بہن، بیٹی اور بیوی کو پیروں، فقیروں اور شیطانوں کے حجرے میں تنہا داخل کر دیتے ہیں۔ (العیاذ باللہ)