امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے شوہر، ماں اور حقیقی و مادری بھائیوں کے بارے میں مروی ہے، انہوں نے کہا: سیدنا عمر، سیدنا عبداللہ بن مسعود اور سیدنا زید رضی اللہ عنہم سب بھائیوں کو وراثت کے حصہ میں شریک کرتے تھے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: باپ حقیقی بھائیوں کو مادری بھائیوں سے قریب کر دیتا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الفرائض/حدیث: 2916]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 2924] » اس روایت کی سند صحیح علی شرط البخاری ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11145] ، [عبدالرزاق 19009] ، [ابن منصور 20، 21]
وضاحت: (تشریح احادیث 2914 سے 2916) بہن بھائی تین قسم کے ہوتے ہیں: (1) حقیقی: جن کے ماں باپ ایک ہوں، (2) پدری: جن کے والد ایک اور مائیں مختلف ہوں، (3) مادری: جن کی ماں ایک اور باپ مختلف ہوں۔ اور عصبہ سے مراد وہ رشتے دار ہیں جن کے حصے کتاب و سنّت میں مقرر نہیں، مختلف حالتوں میں ورثاء سے جو بچے وہ ان کے حصے میں آتا ہے، ان ہی عصبہ میں سے بھائی ہیں جو دیگر وارثین کی موجودگی میں جو بچ جائے اس کے وارث ہوتے ہیں، بعض علماء کے نزدیک صرف حقیقی بھائی عصبہ ہو کر حصہ لیں گے، اور بعض صحابہ و تابعین کے نزدیک حقیقی، مادری اور پدری سب بھائی اس مسئلہ میں شریک ہو کر اپنا حصہ لیں گے، اسی لئے اس مسئلہ کا نام مشرکہ رکھا گیا۔ صورتِ مذکور بالا جو اثر میں بیان ہوئی ہے اس میں ایک عورت نے اپنے پیچھے شوہر اور ماں اور حقیقی بھائی اور مادری بھائی چھوڑے تو تقسیم اس طرح ہوگی: شوہر . . . . 3 . . . . نصف ماں . . . . 1 . . . . سدس حقیقی بھائی . . . . 2 . . . . ثلث مادری بھائی . . . . باقی جو بچاسب بھائیوں کے درمیان مساوی تقسیم ہوگا۔