سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی نے ایک پیالہ بھیجا جس میں ثرید تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری کسی بیوی کے گھر میں تھے، اس گھر والی نے پیالے پر ہاتھ مارا اور وہ پیالہ ٹوٹ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جوڑا اور ثرید اس میں ڈالنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جارہے تھے۔ ”کھاؤ تمہاری امی کو غیرت آگئی“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتظار کیا یہاں تک کہ صحیح سالم پیالہ آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیالے کو اس بیوی کو دے دیا جس کا پیالہ ٹوٹ گیا تھا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ہمارا بھی یہی قول ہے (یعنی کسی کا کوئی پیالہ توڑ دے تو اس کو اس کی جگہ دوسرا صحیح سالم پیالہ واپس کرنا چاہے)۔ [سنن دارمي/من كتاب البيوع/حدیث: 2634]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح على شرط مسلم، [مكتبه الشامله نمبر: 2640] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2481، 5225] ، [أبوداؤد 3567] ، [ترمذي 1359] ، [أبويعلی 3339، 3774]
وضاحت: (تشریح حدیث 2633) ہوا یہ تھا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حجرے میں قیام فرما تھے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا تیار کر رہی تھیں کہ دوسری بیوی نے ثرید کا ایک پیالہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھیجا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ ناگوار گذرا اور طیش میں آ کر ایک ہاتھ رسید کر دیا، پیالہ گرا اور ٹوٹ گیا اور ثرید بھی گر گیا۔ یہ ایک فطری امر تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مواخذہ نہیں فرمایا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسنِ اخلاق دیکھئے کہ ناراضگی کا اظہار کیا نہ ڈانٹا نہ ڈپٹا، بلکہ گرے ہوئے کھانے کو خود سمیٹا اور گھر والوں سے کہا کھاؤ، تمہاری ماں کو غیرت آگئی۔ اس میں رزق کی قدر ہے، حسنِ تصرف ہے، اور ایک بیوی کے پاس دوسری بیوی کا ہدیہ آئے تو اسے قبول کرنے کی تعلیم ہے، اور پھر اگر کسی کا نقصان ہو جائے تو اس کی تلافی کا حکم ہے۔ سبحان الله! کتنی پاکیزہ سیرت اور تعلیم ہے ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی۔