اس سند سے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایسے ہی اس سیاق میں مروی ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب السير/حدیث: 2533]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2539] » اس روایت کی تخریج پہلے گزر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2531 سے 2533) اس حدیث کے مطابق مشرک سے جہاد میں مدد لینا درست نہیں۔ مسلم شریف میں ہے کہ ایک مشرک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوٹ جاؤ، میں مشرک سے مد نہیں چاہتا۔ جب وہ اسلام لایا تو اس سے مدد لی، لیکن بعض علماء کے نزدیک مشرکین سے مدد لینا بوقتِ ضرورت جائز ہے۔ سیر کی کتابوں میں ہے کہ جنگِ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمان نامی مشرک سے مدد لی، اور اس نے جھنڈا اٹھانے والے تین مشرکوں کو تہہ تیغ کیا، اور خیبر و حنین میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلمین و منافقین سے مدد لی، اس لئے وقتِ ضرورت ان سے مدد لینا جائز ہے۔ واللہ اعلم۔