ابومیمونہ سلیمان اہلِ مدینہ کے غلام سے مروی ہے کہ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک عورت آئی، عرض کیا کہ میرا شوہر میرے بچے کو لے جانا چاہتا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میرا شوہر اپنی اولاد یا میرے بیٹے کو لے جانا چاہتا ہے جو میری خدمت کرتا اور میرے لئے ابوعنبہ کے کنویں سے پانی لاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دونوں قرعہ ڈال لو“، «استهما» کہا یا «تساهما» کہا، ابوعاصم کو اس میں شک ہے (معنی دونوں لفظ کے ایک ہیں)۔ پھر اس عورت کا شوہر آیا اور کہنے لگا: میری اولاد کے بارے میں یا میرے بیٹے کے بارے میں کون مجھ سے جھگڑا کرے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بچے سے) کہا: ”بیٹے یہ تمہارے باپ ہیں اور یہ تمہاری ماں ہیں، تم جس کے پاس رہنا چاہو اس کا ہاتھ تھام لو۔“ اور عاصم نے کہا: ان دونوں میں جس کے ساتھ چاہو چلے جاؤ، چنانچہ اس لڑکے نے اپنی والدہ کا ہاتھ تھام لیا اور وہ اسے لے کر چلی گئیں۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2330]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2339] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2277] ، [نسائي 3496] ، [ترمذي 1357] ، [ابن ماجه 2351] ، [أبويعلی 6131] ، [موارد الظمآن 1200] ، [الحميدي 1114]
وضاحت: (تشریح حدیث 2329) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میاں بیوی میں اگر جدائی ہو جائے تو بچے کو اختیار ہوگا ماں باپ میں سے جس کے پاس چاہے رہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک کم سن بچہ ماں کے پاس رہے گا اور جب کھانے پینے اور خود استنجا کرنے لگے تو پھر باپ کے پاس رہے گا، یعنی اس کو اختیار نہیں۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر میاں بیوی میں بچوں کے بارے میں جھگڑا ہو تو قرعہ اندازی کر لی جائے گی، جس کے نام کا قرعہ نکلے گا بچے اس کے پاس ہی رہیں گے لیکن اختیار دینا اولی ہے، اکثر احادیث اسی پر دلالت کرتی ہیں۔ عربی میں اس کو حق حضانہ کہا جاتا ہے۔ سعودی عدالت میں یہ قانون ہے کہ میاں بیوی میں جدائی ہو جائے تو کمسن بچے بچی کو سن تمیز یعنی سات سال تک ماں کے پاس رکھا جائے گا کہ وہ عورت دوسرا نکاح نہ کر لے، دوسرا نکاح کرنے کی صورت میں وہ بچہ یا بچی باپ کی طرف منتقل ہو جائے گی۔ واللہ اعلم۔