سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے مرفوعاً بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کو روزوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے، وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کو (رات کی) نمازوں میں سب زیادہ محبوب داؤد علیہ السلام کی نماز ہے، وہ آدھی رات نماز پڑھتے، ایک تہائی سوتے، اور رات کا چھٹا حصہ تسبیح پڑھتے تھے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: یہ آخری جملہ غلط ہے، صحیح یہ ہے کہ آدھی رات وہ سوتے، ایک تہائی نماز پڑھتے، اور ایک سدس تسبیح کرتے تھے۔ [سنن دارمي/من كتاب الصوم/حدیث: 1790]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1793] » اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1131] ، [مسلم 1159/189] ، [أبوداؤد 2448] ، [نسائي 1629] ، [ابن ماجه 1712] ، [ابن حبان 352، 2950] ، [مسند الحميدي 600، 601]
وضاحت: (تشریح حدیث 1789) یہاں محل شاہد حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے جو ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن روزہ نہیں رکھتے تھے، اور یہی افضل ترین طریقہ ہے، جس کو استطاعت ہو ایسا کر سکتا ہے، قوت نہیں تو کوئی ضروری نہیں، روزہ ایک عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت ہی محبوب ہے، جس کے بارے میں حدیثِ قدسی ہے: «اَلصَّوْمُ لِيْ وَ أَنَا أَجْزِيْ بِهِ»(ترجمہ: روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا)، اور یہ فرض و نفل ہر قسم کے روزے کو شامل ہے۔ صحیحین اور سنن میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے کہ وہ روزانہ روزہ رکھا کرتے تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صومِ داؤدی کی طرف رہنمائی فرمائی اور فرمایا: اس سے افضل کوئی روز نہیں، کیونکہ ہر دن روزہ رکھنے سے دیگر حقوق ادا کرنے میں کمی پیدا ہو سکتی ہے۔ دوسری بات یہ بالا حدیث قیام اللیل کی ہے اور اس میں بھی داؤد علیہ السلام کا طرزِ عمل قابلِ اتباع ہے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کا بھی یہی طریقۂ عمل تھا، آدھی رات کے بارہ گھنٹے ہوں تو شروع کے چھ گھنٹے سونا، چار گھنٹے (عبادت کرنا) نماز پڑھنا، اور دو گھنٹے تسبیح و تہلیل یا دو گھنٹے آرام کرنا، یہ داؤد علیہ السلام کا طریقہ تھا۔ «(واللّٰه اعلم وعلمه أتم)»