سیدنا رفاعہ اور مالک رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جو دونوں بھائی رافع کے بیٹے اور اہل بدر میں سے تھے، انہوں نے کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے یا یہ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے اور ہم آپ کے ارد گرد تھے (یہ شک ہمام کو ہوا) کہ اچانک ایک آدمی داخل ہوا اور قبلہ رو ہو کر نماز پڑھنے لگا، جب نماز پڑھ لی تو آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور موجود لوگوں سے سلام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں وعلیک کہا اور فرمایا: ”جاؤ پھر سے نماز پڑھو، تمہاری نماز نہیں ہوئی“، چنانچہ وہ شخص واپس گیا اور نماز پڑھنے لگا، ہم غور سے اس کی نماز کو دیکھ رہے تھے، ہم نہیں جان سکے کہ اس کی نماز میں کیا نقص تھا، پھر جب وہ نماز پڑھ چکا تو آیا اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم و دیگر اشخاص سے سلام کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعلیک کہا اور فرمایا: ”جاؤ پھر سے نماز پڑھو، تمہاری نماز نہیں ہوئی“، ہمام نے کہا: پتہ نہیں دو بار آپ نے اسے نماز لوٹانے کے لئے کہا یا تین بار، پھر اس شخص نے کہا: میں نے تو درست نماز پڑھنے میں کسر نہ چھوڑی، پتہ نہیں آپ نے میری نماز میں کیا عیب یا نقص ملاحظہ فرمایا، تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے کسی کی نماز پوری نہیں ہوتی جب تک کہ وضوء پورا نہ کرے، جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حکم دیا ہے، پس اپنا منہ دھوئے اور کہنیوں تک ہاتھ دھوئے، پھر اپنے سر کا مسح کرے اور ٹخنوں تک اپنے دونوں پیر دھوئے، پھر تکبیر کہے، اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرے، پھر جتنا ہو سکے قرآن پڑھے (یعنی جس قدر اس بارے میں اللہ عز و جل نے اجازت دی ہے)، پھر تکبیر کہے پس رکوع کرے اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھے یہاں تک کہ تمام جوڑ آرام پائیں اور ڈھیلے ہو جائیں، (رکوع سے اٹھتے ہوئے) «سمع الله لمن حمده» کہے اور سیدھا کھڑا ہو جائے، کمر بھی سیدھی ہو جائے اور ہر جوڑ (ہڈی) اپنی جگہ پر آ جائے، پھر الله اکبر کہہ کر سجدہ کرے اور اپنے چہرے کو زمین پر جما دے“، ہمام نے کہا: اور کبھی یہ کہا: ”پیشانی زمین پر رکھ دے یہاں تک کہ تمام جوڑ آرام پا کر ڈھیلے ہو جائیں، پھر اللہ اکبر کہے اور ٹھیک سے بیٹھ جائے اور اپنی پیٹھ کو سیدھا کر لے“، اس طرح چار رکعت کا طریقہ بتایا، جب بتا چکے تو فرمایا: ”تم میں سے کسی کی نماز اس وقت تک پوری نہ ہو گی جب تک ایسا نہ کرے۔“[سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1366]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1368] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 858] ، [نسائي 1135] ، [ابن ماجه 460] ، [أبويعلی 6623] ، [ابن حبان 1787] ، [موارد الظمآن 484]
وضاحت: (تشریح احادیث 1363 سے 1366) یہ حدیث «مسئى الصلاة» سے مشہور ہے، اور اس صحابی کی نماز میں اطمینان و سکون اور اعتدالِ ارکان کی کمی تھی جس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار نماز لوٹانے کے لئے کہا، اس سے معلوم ہوا تعدیلِ ارکان نماز کی اہم ارکان میں سے ہے جس کے بنا نماز کوے کے چونچ یا ٹھونگیں مارنے سے مرادف ہے، اسی لئے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ رکوع کیسے کرے، رکوع سے اٹھ کر فوراً سجدے میں نہ جائے، پھر اطمینان سے سجدہ کرے اور دونوں سجدوں کے درمیان اطمینان سے بیٹھے، اس طرح جب نماز پڑھے گا تو اس کی نماز پوری اور الله تعالیٰ کے حضور قابلِ قبول ہوگی ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو صحیح طرح سے نماز پڑھنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔