سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ اغر نامی ایک صاحب (جو مزینہ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، اور انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے) کے بنو عمرو بن عوف کے کسی شخص کے ذمے کھجوروں کے چند وسق تھے، جن کا مطالبہ کرنے کے لیے وہ بارہا جا چکے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (اور شکایت کی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو میرے ساتھ بھیجا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جسے بھی (راستے میں) ملتے وہ ہمیں سلام کہتا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تو نے لوگوں کو نہیں دیکھا کہ وہ تجھ کو پہلے سلام کہتے ہیں تو ان کو پہل کرنے کی وجہ سے اجر ملتا ہے؟ تم سلام میں پہل کرو تو تمہیں اجر ملے گا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہ اپنی طرف سے بیان کیا کرتے تھے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 984]
تخریج الحدیث: «حسن: المعجم الكبير للطبراني: 281/1، ح: 879»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 984
فوائد ومسائل: (۱)آخری جملے ”ابن عمر رضی اللہ عنہما ....“ کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں:تم سلام میں پہل کرو....یہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنا قول ہے جو حدیث میں ادراج کے طور پر نقل ہوا ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اس کا عملی اظہار کیا کرتے تھے اور ہمیشہ سلام میں پہل کرتے تھے جیسا کہ حدیث ۹۸۲ میں گزرا ہے۔ (۲) مذکورہ بالا تمام روایات سے معلوم ہوا کہ سلام کہنے میں پہل کرنا افضل اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 984