سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم ایک غزوے (موتہ) میں تھے کہ لوگ یک بار بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہم نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے کہ ہم میدانِ جنگ سے بھاگ آئے ہیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”سوائے اس کے جو جنگ کے لیے رخ بدل لے۔“ ہم نے کہا کہ ہم مدینہ نہیں جائیں گے تاکہ کوئی ہمیں نہ دیکھے، پھر ہم نے کہا: اگر چلے جائیں (تو یہی بہتر ہے)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر سے فارغ ہوئے تو ہم نے کہا: ہم بھگوڑے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دوبارہ حملہ کرنے والے ہو، نہ کہ بھاگنے والے۔“ تب ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک کا بوسہ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے لیے مرکزی شخصیت ہوں، میری طرف ہی آنا چاہیے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 972]
تخریج الحدیث: «ضعيف: سنن أبى داؤد، الجهاد، ح: 2647 و جامع الترمذي، الجهاد، ح: 1716»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 972
فوائد ومسائل: یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، تاہم علماء نے کسی کے علم و عمل اور نیکی و تقویٰ کی وجہ سے ازراہ محبت اس کے ہاتھ یا سر کا بوسہ لینا جائز قرار دیا ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 972