سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: مجھے اس آدمی سے تعجب ہوتا ہے جو تقدیر سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ وہ اس پر واقع ہونے والی ہے، اور اپنے بھائی کی آنکھ کا تنکا بھی اسے نظر آجاتا ہے اور اپنی آنکھ میں شہتیر بھی اسے دکھائی نہیں دیتا، اور اپنے بھائی کے دل سے کینے کو نکالنا چاہتا ہے اور اپنے دل میں کینے کو چھوڑ دیتا ہے۔ اور میں نے اپنا راز کسی کے پاس نہیں رکھا کہ پھر اس کے افشا کرنے پر اسے ملامت کی ہو۔ میں اسے کیسے ملامت کر سکتا ہوں جبکہ میں خود ہی (اس کو محفوظ رکھنے سے) تنگ دل ہوگیا تھا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْكَلامِ/حدیث: 886]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى الدنيا فى الصمت: 406 و البيهقي فى القضاء و القدر: 501 و الخرائطي فى اعتلال القلوب: 694»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 886
فوائد ومسائل: مطلب یہ ہے کہ اگر آپ اپنا راز محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو پھر کسی کو مت بتائیں۔ اگر آپ اپنے راز کی خود حفاظت نہ کرسکے تو کوئی دوسرا آپ کے راز کی حفاظت ہرگز نہیں کرے گا۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ انسان کو اپنے عیب نظر نہیں آتے وہ ہمیشہ دوسروں کی کمزوریاں تلاش کرتا ہے حالانکہ وہ خود اس سے بڑی غلطیوں میں ملوث ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ راہنمائی فرمائی کہ اگر انسان چاہتا ہے کہ لوگ اس کے بارے میں اپنا دل صاف رکھیں تو سب سے پہلے اسے اپنا دل لوگوں کے بارے میں صاف رکھنا ہوگا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 886