سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: جیسے اللہ چاہے اور آپ چاہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے اللہ تعالیٰ کا ند اور شریک بنا دیا۔ یوں کہے کہ جو اکیلا اللہ چاہے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الأقوال/حدیث: 783]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 2561 و النسائي فى الكبريٰ: 10759 - انظر الصحيحة: 139»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 783
فوائد ومسائل: بعض امور وہ ہیں کہ جن کا کلی اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ان میں صرف یہ کہنا چاہیے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ اور بعض امور میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اختیار دیا ہے لیکن وہ اختیار بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہے، وہ اس میں اللہ کے برابر اور ہمسر نہیں ہیں، لہٰذا ایسے امور میں بھی ایسا انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے جس سے شراکت کا شبہ بڑے، مثلاً جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جیسے اللہ نے چاہا اور پھر آپ نے چاہا۔ کیونکہ ماشاء اللہ وشئت میں واؤ شراکت پر دلالت کرتا ہے۔ اس میں نیت کا عمل دخل نہیں ہے ظاہری اور لفظی طور پر بھی ایسے الفاظ سے گریز کرنا چاہیے جن میں شرک کا شبہ ہو۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 783