سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دھاری دار ریشم کے کپڑوں کا جوڑا دیکھا تو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ یہ خرید لیں اور اسے جمعہ کے دن اور وفود کے استقبال کے لیے زیب تن کر لیا کریں (تو کتنا اچھا لگے گا)، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عمر! یہ تو وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو“، پھر اسی طرح کے جوڑے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بطور ہدیہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جوڑا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بطور تحفہ بھیجا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ نے یہ میری طرف بھیج دیا حالانکہ میں نے آپ سے اس کے بارے وہ کچھ کہتے سنا ہے جو آپ نے فرمایا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے یہ تمہاری طرف اس لیے نہیں بھیجا کہ تم اسے پہنو، میرا تحفہ دینے کا مقصد یہ تھا کہ تم اسے بیچ دو (اور اس کی قیمت سے فائدہ اٹھاؤ)، یا کسی کو دے دو۔“ تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اخیافی (ماں جائے) مشرک بھائی کو بطور تحفہ دے دیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ/حدیث: 71]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الجمعة، باب يلبس أحسن ما يجد: 886 و مسلم: 2068 و أبوداؤد: 1076 و النسائي: 1382»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 71
فوائد ومسائل: (۱)قرابت دار مشرک ہو تب بھی اس سے صلہ رحمی کرنی چاہیے جیسا کہ حدیث سے واضح ہے۔ (۲) تحائف کا مقصد باہمی محبت کا اظہار ہوتا ہے جبکہ کافر سے محبت کرنا درست نہیں تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مشرک بھائی کو تحفہ کیوں دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا مقصد تالیف قلبی ہوسکتا ہے۔ جب دل میں کفر کے خلاف نفرت ہو تو دل جوئی کے لیے کافر کو تحفہ دینا جائز ہے، تاکہ اس کو اسلام کے قریب کرنے کی کوشش کی جائے۔ (۳) اس حدیث سے صلہ رحمی کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ قرابت دار اگر کافر ہو تب بھی اس کے ساتھ صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ (۴) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اپنے مشرک بھائی کو ریشمی جوڑا تحفے میں دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر احکام شرع کے پابند نہیں ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ اس بات پر تو اہل علم کا اتفاق ہے کہ کفار اصول شریعت کے پابند ہیں، یعنی وہ ایمان لانے کے مکلف ہیں۔ فروعات، مثلاً:نماز پڑھنا، روزے رکھنا، حرام سے بچنا وغیرہ کے بارے میں تین اقوال ہیں: ٭ اصول کی طرح فروعات میں بھی کفار مکلف ہیں۔ ٭ اصول کے تو مکلف ہیں، البتہ فروعات کے مکلف نہیں ہیں۔ ٭ فروعات میں اوامر (جن چیزوں کے کرنے کا حکم ہے)کے مکلف نہیں، تاہم نواہی (جن کاموں سے روکا گیا ہے)کے مکلف ہیں۔ راجح بات یہ ہے کہ کفار جس طرح ایمان لانے کے مکلف ہیں، یعنی ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایمان لائیں ورنہ انہیں سزا ہوگی اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ”فروعات شریعت کو بھی بجا لائیں کیونکہ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت ہے کہ کفار کو روز قیامت جو سزا ہوگی وہ نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے بھی ہوگی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَا سَلَکَکُمْ في سَقَرَ() قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ﴾(المدثر:۴۲، ۴۳) ”(مجرموں سے سوال ہوگا)تمہیں کس چیز نے جہنم میں ڈالا؟ وہ کہیں گے ہم نمازیں نہیں پڑھتے تھے۔“ اس پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے کہ جب ان کی نمازیں حالت کفر میں قبول ہی نہیں تو پھر ان سے نماز پڑھنے کا مطالبہ چہ معنی دارد؟ ابو علی الرجراجی رحمہ اللہ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: کافروں کو حالت کفر سے نکل کر ایمان لانے کا حکم ہے اور اس کے تابع عبادات کو بجالانے کا بھی حکم ہے، یعنی انہیں حکم ہے کہ وہ ایمان لاکر نماز ادا کریں۔ یہ نماز کے اسی طرح مخاطب ہیں جیسے کسی بے وضو شخص سے کہا جائے کہ نماز پڑھو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے وضو کرو اور پھر نماز پڑھو کیونکہ تم نماز پڑھنے کے مکلف ہو اور حدث کی صورت میں اس کی قبولیت میں جو رکاوٹ ہے اس کو بھی دور کرو۔ اسی طرح کافر بھی نماز کا مخاطب ہے کہ وہ اپنے کفر کو ختم کرے جو اس کی قبولیت نماز میں رکاوٹ ہے اور پھر نماز ادا کرے۔ (رفع النقاب عن تنقیح الشهاب:۲؍۲۸۶) اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اپنے مشرک بھائی کو تحفہ دینے سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ مشرکوں کے لیے اس کا استعمال جائز ہے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مقصد کے لیے دیا ہو کہ اسے بیچ کر استعمال میں لاؤ۔ یہی بات درست ہے۔ ورنہ کافر کو امورِ اسلام کے خلاف رغبت دلانے والی بات ہے جس ذہن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو ریشمی سوٹ دیا اسی کے مطابق عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی کو اس کا تحفہ دیا تفصیل حدیث نمبر ۲۶ کی شرح میں دیکھیں۔ یا پھر اس لیے بھی کہ جب وہ اصول شریعت کو نہیں مانتا تو اس کا فروعات کو ماننا یا نہ ماننا برابر ہے۔ یعنی اگر وہ یہ حلہ نہ بھی پہنے گا تو کافر ہی ہے اور اللہ کے عذاب کا مستحق ہے کیونکہ اس کا نہ پہننا تبھی سود مند ہوسکتا ہے جب وہ ایمان لائے۔ الغرض کافر اگر فروعات شریعت کی پابندی بھی کرے تب بھی اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ عبادات میں نیت شرط ہے اور کافر کی نیت، جب تک وہ کلمہ توحید کا اقرار نہ کرے، غیر معتبر ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 71