عبادہ زرقی کہتے ہیں کہ میں عمرو بن عثمان کے ساتھ مدینہ منورہ کی مسجد میں بیٹھا تھا کہ اس دوران ہمارے پاس سیدنا عبداللہ بن سلام اپنے بھتیجے کا سہارا لیے ہوئے گزرے اور (ہماری) مجلس سے صرف نظر کرتے ہوئے آگے چلے گئے، پھر ان کے دل میں شفقت کے جذبات پیدا ہوئے تو ہمارے پاس واپس آئے اور کہا: اے عمرو بن عثان! تم جو مرضی ہے کر لو، انہوں نے دو تین مرتبہ یہ بات دہرائی، اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر مبعوث فرمایا، اللہ کی کتاب میں یقیناً یہ بات ہے، انہوں نے دو مرتبہ بات دہرائی کہ ”تو اس شخص سے قطع تعلقی نہ کر جو تیرے باپ کا تعلق دار تھا، ورنہ (اس بے اعتنائی کی سزا کے طور پر) اللہ تیرا نور ختم کر دے گا۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 42]
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه المروزي فى البر والصلة: 87 و المزي فى تهذيب الكمال: 282/10، الضعيفة: 2089»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 42
فوائد ومسائل: یہ روایت سنداً ضعیف ہے تاہم باپ کے تعلق داروں سے صلہ رحمی ممدوح اور پسندیدہ عمل ہے اور ان سے قطع رحمی قابل مذمت ہے جیسا کہ گزشتہ ابواب میں صحیح احادیث کے حوالے سے گزرا ہے، اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے یہ بات شاید عمرو بن عثمان کی بے اعتنائی کی وجہ سے کی ہو اور کتاب سے ان کی مراد تو رات ہو۔ واللہ أعلم، بہر صورت یہ اس وقت ہے جب یہ اثر ثابت ہو جائے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 42