سیدنا نواس بن سمعان انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے متعلق دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نیکی حسن اخلاق کا نام ہے، اور گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں کھٹکے اور تو ناپسند کرے کہ لوگ اس پر مطلع ہوں۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 295]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب البر و الصلة و الآداب: 15، 2553 و الترمذي: 2389»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 295
فوائد ومسائل: (۱)بِرّ سے مراد اطاعت کے وہ تمام کام جو اللہ کے قریب کر دیں اور اس میں والدین کی خدمت بھی داخل ہے، اسی طرح تمام فرائض اور نوافل کو بقدر استطاعت بجالانا۔ گویا حسن اخلاق مذکورہ بالا تمام صفات کے مجموعے کا نام ہے۔ اس لیے لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق اور خالق کو فراموش کرنے والا حسن اخلاق والا کہلوانے کا حق دار نہیں ہوسکتا۔ (۲) اس حدیث میں معرفت گناہ کے دو طریقے بیان ہوئے ہیں۔ ۱۔ انسان اگر سلیم الفطرت ہے اور اس پر شہوات کا غلبہ نہیں ہے اور گناہ کرکے اس کا دل مردہ نہیں ہوچکا تو جس کام کے کرنے پر اسے ملال ہو یا دل میں کھٹکا ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ کام گناہ کا کام ہے۔ ۲۔ طبعی طور پر انسان چاہتا ہے کہ اس کی اچھائی لوگوں پر ظاہر ہو اور گناہ یا عیب کے کام میں اس کے برعکس انسان یہ پسند کرتا ہے کہ لوگ مطلع نہ ہوں اس لیے گناہ کی دوسری علامت یہ ہے کہ جس کام کو انسان لوگوں سے چھپانا پسند کرے وہ بھی گناہ ہے بشرطیکہ وہ چھپانا اس کے عیب کی وجہ سے ہو کوئی دوسری وجہ نہ ہو۔ (۳) ابن رجب رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ مومن پر حق اور باطل خلط ملط نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے نور بصیرت کی وجہ سے انہیں پہچان لیتا ہے کہ حق کو اس کا دل قبول کرتا ہے اور باطل سے نفرت۔ (۴) یہ اس صورت میں جب کسی معاملے میں قرآن و سنت کا واضح حکم نہ ہو، البتہ جب واضح حکم آجائے تو اسے تسلیم کرنا ضروری ہے۔ اس میں کراہت یا پسند کا عمل دخل نہیں۔ طبعی کراہت کی وجہ سے کسی مباح کام کو چھوڑا تو جاسکتا ہے لیکن اسے حرام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسی طرح قرآن و سنت کی رو سے ایک کام اگر ناجائز ہے تو وہ ناجائز ہی رہےگا خواہ لوگ اس کے جواز کا فتویٰ ہی کیوں نہ دیں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 295