سیدنا ابوسلیمان مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ ہم، ہم عمر نوجوان تھے، چنانچہ ہم بیس راتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ٹھہرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ ہم گھر والوں کے لیے اداس ہو گئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اہل و عیال کے متعلق پوچھا کہ کسی کا کون ہے؟ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے نرم مزاج اور مہربان تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جاؤ اور انہیں تعلیم دو، اور (اسلامی احکام پر عمل کا) حکم دو، اور نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھا ہے۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک تمہارے لیے اذان دے، اور جو تم میں سے بڑا ہے وہ امامت کروائے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 213]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب رحمة الناس و البهائم: 6008 و مسلم: 1567 و النسائي: 635 - الإرواء: 213»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 213
فوائد ومسائل: (۱)یہ حدیث نماز کے حوالے سے اصل کا درجہ رکھتی ہے، تاہم امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے اہل خانہ سے متعلق آدمی کی ذمہ داری کا استنباط کیا ہے۔ وہ اس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن حویرث اور ان کے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ گھر جاکر اسلام کی یہ تعلیم اپنے گھر والوں کو بھی سکھائیں۔ کیونکہ انہیں تعلیم دینا ان کی ذمہ داری ہے اور اہل میں انسان کی بیوی اور بچے بھی آجاتے ہیں۔ جس سے متعلق ان سے باز پرس ہوگی۔ (۲) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاکم وقت کو اپنی رعایا اور استاد کو اپنے شاگردوں کے جذبات و احساسات اور ضرورتوں کا خیال رکھنا چاہیے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا۔ (۳) مسافر کے لیے اذان و اقامت اور جماعت مشروع ہے، نیز اذان کے لیے کسی بھی فرد کو معین کیا جاسکتا ہے۔ اس میں علم و فضل والا ہونا شرط نہیں، تاہم دوسری احادیث سے اس امر کی ترغیب ملتی ہے کہ مؤذن اسے مقرر کرنا چاہیے جس کی آواز خوبصورت اور بلند ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((وَلْیُنَادِ بِلَالٌ، فَاِنَّهُ أنْدَی صوتًا مِنْكَ)) ”اور چاہیے کہ بلال اذان دے کیونکہ اس کی آواز تجھ سے بلند اور خوبصورت ہے۔“(صحیح سنن أبي داؤد، حدیث:۴۶۹) امامت کے لیے علم و فضل کو دیکھنا چاہیے اور جس شخص کو زیادہ قرآن یاد ہو اور وہ اس کا عالم بھی ہو اسے امامت کروانی چاہیے۔ اور اگر علم و فضل میں سب برابر ہوں تو جو عمر میں بڑا ہو اسے امامت کے فرائض سر انجام دینے چاہئیں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 213