حضرت اسماء بن عبید سے مروی ہے کہ میں نے ابن سیرین رحمہ اللہ سے پوچھا کہ میری زیر کفالت ایک یتیم ہے (میں اس سے کیسا سلوک کروں؟) انہوں نے فرمایا: اس سے وہی سلوک کرو جو اپنی اولاد سے کرتے ہو اور جس بات پر اپنی اولاد کو مارتے ہو اسے بھی مارو۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْكَرَمِ وَ يَتِيمٌ/حدیث: 140]
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 140
فوائد ومسائل: جس طرح مریض کو بچانے کے لیے بسا اوقات ڈاکٹر کو آپریشن کرنا پڑتا ہے اسی طرح والد کو بھی بعض اوقات اولاد کی تربیت کے لیے ان کی سرزنش کرنی پڑتی ہے۔ ایسا کرنا رحم دلی کے خلاف نہیں ہے۔ حد سے زیادہ نرمی اولاد کو بگاڑ دیتی ہے۔ اسی طرح زیر پرورش یتیم پر بھی اگر سختی کرنی پڑے تو جائز بلکہ مطلوب ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ((عَلِّقُوا السَّوط حَیْثُ کِرَاهُ اَهْلُ الْبَیْتِ فَإنَّهٗ أدَبٌ لَهُمْ)) ”گھر میں کوڑا سامنے لٹکا کر رکھو یہ بیوی بچوں کے لیے باعث ادب ہے۔“ (معجم کبیر للطبراني:۳؍ ۹۲؍ ۲۔ سلسلة صحیحة، رقم:۱۴۴۷) بچے اپنے ہوں یا زیر کفالت ان کی صحیح تربیت کے لیے ضروری ہے کہ نرمی و شفقت کے ساتھ ساتھ بوقت ضرورت سختی بھی کی جائے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 140