سعد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ وہ عبداللہ بن عمرو اور قاسم بن محمد کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ ان دونوں نے سرف مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا تو ان دونوں نے انہیں جواب دیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1003]
تخریج الحدیث: «ضعيف الإسناد موقوف: تفرد به المصنف»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1003
فوائد ومسائل: (۱)مذکورہ بالا دونوں روایات ضعیف ہیں۔ اس کے برعکس انگلیوں اور ہتھیلی کے اشارے سے سلام کا جواب دینا یہود ونصاریٰ کا طریقہ بتایا گیا ہے اور ان کی مشابہت سے روکا گیا ہے۔ (جامع الترمذي والسلسلة الاحادیث الصحیحة ح:۲۱۹۴) امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جو شخص استطاعت نہ رکھتا ہو کہ وہ زبان سے سلام کہے تو وہ ہاتھ کے اشارے اور زبان سے سلام کرلے، مثلاً کوئی شخص دور ہے یا گونگا ہے یا نماز میں ہے تو وہ ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دے۔ (فتح الباري) شیخ البانی رحمہ اللہ جلباب المرأة المسلمة میں فرماتے ہیں کہ امام نووی رحمہ اللہ نے جس روایت سے استدلال کیا ہے وہ شہر بن حوشب کی وجہ سے ضعیف ہے اس لیے ہاتھ کے اشارے سے کسی طرح بھی سلام نہیں کہنا چاہیے کیونکہ اس سے یہود ونصاریٰ کی مشابہت ہوتی ہے۔ (جلباب المرأة المسلمة، ص:۱۹۵) ہمارے رجحان کے مطابق ممکن حد تک ہاتھ کے اشارے سے سلام کرنے سے گریز کرنا چاہیے، تاہم ناگزیر صورتوں میں جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے ہاتھ کے اشارے اور زبان دونوں سے سلام کا جواب دیا جاسکتا ہے۔ اور ا سکی دو وجوہات ہیں۔ (ا) جامع ترمذی وغیرہ کی ہاتھ کے اشارے سے سلام کرنے والی روایت اگرچہ شہر بن حوشب کی وجہ سے ضعیف ہے، تاہم صحابہ کے آثار میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے اگرچہ تمام اسناد میں کلام ہے۔ پھر یہود و نصاری سے صرف اشارے سے سلام کرنے کا ذکر ہے۔ زبان سے ادا کرنے سے کسی حد تک مشابہت ختم ہو جاتی ہے۔ (ب)نماز میں سلام کا جواب اشارے سے دینا صحیح احادیث سے ثابت ہے جس سے معلوم ہوا کہ استثنائی صورت میں اس کی گنجائش موجود ہے۔ (۲) عصر حاضر میں ہاتھ کے اشارے سے سلام اور ہیلو کا جو رواج ہے خواہ دوسرا شخص قریب ہی ہو تو یہ یقیناً یہود ونصاریٰ کی مشابہت ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1003