سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔“ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر کیا ہو گا؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک کے بعد ایک نائب ہو گا، پس ان میں سے جو سیدھا رہے تو ان کی بیعت کی وفاداری کرو، اور جو سیدھا نہ رہے تو انہیں ان کا حق ادا کرو، اور جو تمہارا حق ہے اس کے متعلق اللہ سے سوال کرو۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الامارة/حدیث: 886]
تخریج الحدیث: «اںظر ما قبله .»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 886 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 886
فوائد: (1).... مذکورہ حدیث سے سیاست کا اثبات ہوتا ہے۔ معلوم ہوا سیاست کوئی بری چیز نہیں ہے اگر بری ہوتی تو انبیاء علیہم السلام نہ کرتے اور انبیاء علیہم السلام کی سیاست کا یہ مطلب ہے وہ ان کے دین اور دنیا دونوں کے ذمے دار تھے، کیونکہ انبیاء علیہم السلام کے مشن میں یہ چیزیں شامل تھیں کہ لوگوں کی اصلاح، دیکھ بھال اور اسلامی سلطنت کا انتظام کریں۔ اس لیے اگر ایک نبی فوت ہو جاتا تو دوسرا اس کا جانشین بن جاتا۔ جیسا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے جانشین سیدنا یوشع علیہ السلام بنے۔ (2).... مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ جیسا کہ اللہ ذوالجلال نے فرمایا: ﴿مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِیّنَ وَ کَانَ اللّٰهُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا﴾(الاحزاب: 40).... ”(لوگو!) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں، لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا بخوبی جاننے والا ہے۔“ (3).... معلوم ہوا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء ہوں گے اور اس چیز کی وضاحت بھی کی کہ ایک خلیفہ کے بعد دوسرے خلیفہ کی بیعت کرنا جائز نہیں ہے۔ اور نہ ہی شرعی امیر کے خلاف بغاوت کرنا جائز ہے۔ اگر امیر اپنے فرائض سے کوتاہی کرتا ہے تو وہ عند اللہ مجرم ہوگا اور عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں۔ کیونکہ ہر آدمی سے اس کی ذمہ داریوں کا سوال کیا جائے گا، خواہ وہ حکمران ہیں یا رعایا جو بھی اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کرے گا۔ وہ اللہ ذوالجلال کی عدالت میں جوابدہ ہوگا۔ جیسا کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سلمہ بن یزید جعفی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے نبی! اس کی بابت ارشاد فرمائیے کہ اگر ہم پر ایسے (برے) حاکم مسلط ہو جائیں کہ وہ ہم سے تو اپنا حق مانگیں لیکن ہمیں ہمارا حق نہ دیں تو ہمارے لیے آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ نے اس سے اعراض فرما لیا، انہوں نے پھر آپ سے یہی سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان کی بات سنو اور مانو، ان کے ذمے وہ بوجھ ہے جو انہیں اٹھوایا گیا۔ (یعنی عدل وانصاف) اور تمہارے ذمے وہ بوجھ ہے جو تمہیں اٹھوایا گیا (یعنی اطاعت)۔ “(مسلم، کتاب الامارة، باب فی طاعة الامراء الخ، رقم: 1846)