سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا: جب سورہ المائدہ نازل ہوئی تو میں عضباء (اونٹنی) کی لگام تھامے ہوئے تھی، قریب تھا کہ اس کے بوجھ کی وجہ سے (میرا) بازو کٹ جاتا۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب التفسير/حدیث: 577]
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 458/6: قال الاوط: حسن لغيره وسنده حسن فى الشواهد .»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 577 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 577
فوائد: انبیاء علیہم السلام کی طرف چار طریقوں سے وحی آئی جبکہ قرآنِ مجید میں تین کا تذکرہ ہے: ﴿ وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَهُ اللّٰهُ اِِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوحِیَ بِاِِذْنِهِ مَا یَشَاءُ﴾(الشوری:51)”اور یہ کسی بشر کا مقام نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر ہاں یا تو وحی سے یا کسی دوسرے کے پیچھے سے یا کسی (فرشتے) قاصد کو بھیج دے، سو وہ وحی پہنچا دے اللہ کے حکم سے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے۔“ بخاری ومسلم میں ہے، سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس وحی گھنٹی کی آواز کی مانند آتی ہے اور وحی کی یہ قسم میرے لیے سخت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ جب وحی بند ہوتی ہے تو میں نے وحی کو یاد کرلیا ہوتا ہے اور کبھی فرشتہ میرے سامنے انسان کی شکل میں آتا ہے، وہ مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے اور وہ جو کہتا ہے، میں اسے یاد کرلیتا ہوں۔“ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا سخت سردی کا دن ہوتا، آپ پر وحی اترتی تھی اور جب فرشتہ وحی پہنچا کر چلا جاتا تو آپ کی پیشانی سے پسینے کے قطرے گرتے۔ (بخاري، رقم: 2) انبیاء علیہم السلام کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔