سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مال چھوڑ کر فوت ہو تو وہ اس کے وارثوں کے لیے ہے اور جو قرض چھوڑ جائے تو وہ ہمارے ذمے ہے۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب البيوع /حدیث: 444]
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الكفالة، باب الدين، رقم: 2298 . سنن ابوداود، رقم: 2900 . مسند احمد: 287/2 . صحيح ابن حبان، رقم: 5054 .»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 444 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 444
فوائد: (1) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا جو میت مال چھوڑ کر جائے، وہ اس کے ورثاء میں ہی تقسیم کیا جائے گا۔ (2).... مذکورہ حدیث سے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر شفقت اور مہربانی کا بھی اثبات ہوتا ہے، فرمایا: جس نے قرض یا اولاد چھوڑی تو وہ ہمارے ذمہ ہے۔ معلوم ہوا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اگر کوئی مقروض مر جائے تو اس کا قرض ادا کرے اور بے سہارا چھوٹے بچوں اور بیواؤں کی کفالت کرے۔ لیکن اگر حکومت قرض ادا نہ کرے تو جو اس کی وراثت ہے، پہلے اس سے قرض ادا کیا جائے، بعد میں اس کی وراثت تقسیم کی جائے۔ جیسا کہ ایک روایت میں ہے سیدنا سعد بن اطول جہنی رضی اللہ عنہ کا بھائی تین سو درہم ترکہ چھوڑ کر فوت ہوگیا، چونکہ میت کے اہل وعیال بھی تھے تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کے عیال پر یہ درہم خرچ کرنے کا ارادہ کیا تو نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک تمہارا بھائی اپنے قرض کی وجہ سے روک دیا گیا ہے اس کی طرف سے (پہلے) قرض ادا کرو۔“(سنن ابن ماجة، رقم: 2433۔ مسند احمد: 5؍ 7)