سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں سویا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے حصے میں بیدار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کی، پھر مشکیزے کے پاس آئے تو وضو فرمایا، پھر میں اٹھا اور میں نے وضو کیا، راوی نے بیان کیا، میں نہیں جانتا کہ انہوں نے مسواک کا ذکر کیا، پھر میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا، تو آپ نے مجھے پکڑا اور گھما کر اپنی دائیں جانب کھڑا کر دیا اور آپ میرے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے، پھر آپ نے چار رکعتیں پڑھیں، پھر وتر کی نماز پڑھی، پھر آپ نے فجر کی دو رکعتیں (سنتیں) پڑھیں، اور پھر نماز فجر کے لیے تشریف لے گئے۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب التهجد و التطوع/حدیث: 242]
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب العلم، باب السمر فى العلم . مسلم، كتاب صلاة المسافرين، باب الدعاء فى صلاة الليل وقيامه، رقم: 763 . سنن ابوداود، رقم: 610، 1356 . سنن ترمذي، رقم: 232 . سنن نسائي، رقم: 1121، 806 . سنن ابن ماجه، رقم: 973 .»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 242 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 242
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا دو آدمی جماعت کروا سکتے ہیں۔ نفل نماز کی جماعت کروانا درست ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا جب دو آدمی جماعت کروا رہے ہوں تو مقتدی امام کی دائیں جانب کھڑا ہوگا۔ معلوم ہوا اگر کوئی آدمی اکیلا نماز شروع کرتا ہے اور بعد میں دوسرا آدمی ساتھ مل جائے تو جماعت کی نیت کی جاسکتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا نماز میں تھوڑی بہت حرکت سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ مذکورہ روایت میں ہے کہ چار رکعتیں پڑھی بعد میں نماز وتر پڑھی۔ لیکن صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی، پھر آپ علیہ السلام گھر تشریف لائے اور چار رکعت (نماز نفل) پڑھ کر آپ سو گئے۔ پھر اٹھے اور فرمایا: ”(ابھی تک یہ) لڑکا سو رہا ہے“ یا اسی جیسا لفظ فرمایا، پھر آپ (نماز پڑھنے کے لیے) کھڑے ہوگئے اور میں (بھی وضو کرکے) آپ کی بائیں جانب کھڑا ہوگیا۔ تو آپ نے مجھے دائیں جانب (کھڑا) کرلیا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعت پڑھیں، پھر دو پڑھیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ (بخاري، رقم: 117)