الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 24
فوائد: مذکورہ حدیث سے امانت کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایمان و امانت لازم و ملزوم ہیں۔ اگر بندہ امانت دار نہیں تو یقیناً وہ ایمان سے محروم ہے جیسا کہ: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: «لاَ يَغُرَنَكَ صَلاةُ رَجُلِ وَلاَ صَامُ وَمَن شَاٗءٗ صَلَي وَلٰكِن لَا دِينَ لِمَن لَا اَمَانَتَه لَه»[شعب الايمان: 4/ 336] . . . ”تمہیں کسی شخص کی نماز اور اس کا روزہ دھوکہ میں نہ ڈالے، جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نماز پڑھے مگر اس کا کوئی دین نہیں جو امانت دار نہیں۔“ اسی طرح حدیث میں ہے کہ منافق کی تین علامتیں ہیں: «اَذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَ اَذَ ا وَعده اَخلَفَ وَ اَذَا ائتمِنَ خَانَ.» ”جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اُس کے پاس امانت رکھی جائے تو اُس میں خیانت کرے۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: «وَ اَن صَلَّي وَ صَامَ وَزَعَمَ اَنَّه’مُسلِمٌ .» اور اگرچے نماز پڑھے، روزہ رکھے اور یہ گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئےشرح حدیث نمبر382 اللہ ذوالجلال نے قرآن مجید میں مومنوں کی صفتوں کا تذکرہ فرمایا ہے، ان صفات میں امانتداری بھی ہے: «وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ» [23-المؤمنون:8] ”اور جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو پورے دین کی عمارت امانت پر قائم ہے۔ دین اللہ ذوالجلال نے جبریل علیہ السلام کے ذریعہ اپنے انبیاء کرام علیہ السلام کو عطا فرمایا تو جبریل علیہ السلام کا لقب ہی الروح الامین قرار پایا۔ اور اسی طرح انبیاء علیہم السلام کو بھی امین کے لقب سے ملقب کیا گیا۔ جیسا کہ سورۃ الشعراء میں انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کے حوالے سے ہر نبی کا یہ قول بیان ہوا ہے کہ: «إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ»[26-الشعراء:107] ”میں تمہارے پاس رسول امین ہوں۔“