الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الطهارة
طہارت اور پاکیزگی کے احکام و مسائل
20. طریقہ وضو
حدیث نمبر: 102
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، نا مَعْمَرٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ فَقَالَتْ:" مَنْ أَنْتَ؟ فَقُلْتُ: أَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، قَالَتْ: فَمَنْ أُمُّكَ؟ فَقُلْتُ: رَيْطَةُ بِنْتُ عَلِيٍّ أَوْ فُلَانَةُ بِنْتُ عَلِيٍّ، فَقَالَتْ: مَرْحَبًا بِكَ يَا ابْنَ أَخِي، فَقُلْتُ: جِئْتُكَ أَسْأَلُكِ عَنْ وُضُوءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: نَعَمْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصِلُنَا وَيَزُورَنَا، فَتَوَضَّأَ فِي هَذَا الْإِنَاءِ، أَوْ فِي مِثْلِ هَذَا الْإِنَاءِ، وَهُوَ نَحْوٌ مِنْ مُدٍّ، قَالَتْ: فَغَسَلَ يَدَيْهِ، ثُمَّ تَمَضْمَضَ، وَاسْتَنْثَرَ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ يَدَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ مَرَّتَيْنِ، وَمَسَحَ بِأُذُنَيْهِ ظَاهِرِهِمَا وَبَاطِنِهِمَا، ثُمَّ غَسَلَ قَدَمَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَتْ: إِنَّمَا ابْنُ عَبَّاسٍ دَخَلَ عَلَيَّ فَسَأَلَنِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: يَأْبَى النَّاسُ إِلَّا الْغَسْلَ، وَنَجِدُ فِي كِتَابِ اللَّهِ الْمَسْحَ , يَعْنِي: عَلَى الْقَدَمَيْنِ".
عبداللہ بن محمد بن عقیل بن ابی طالب نے بیان کیا، میں سیدہ ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا کے ہاں گیا تو انہوں نے کہا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں عبداللہ بن محمد بن عقیل ہوں، انہوں نے فرمایا: تمہاری ماں کون ہیں؟ میں نے کہا: ریطہ بنت علی یا فلانہ بنت علی، تو انہوں نے فرمایا: بھتیجے! خوش آمدید، میں نے کہا:، میں آپ کے ہاں آیا ہوں تاکہ آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے متعلق پوچھوں، انہوں نے فرمایا: ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لایا کرتے تھے، آپ نے اس برتن سے وضو کیا، یا اس جیسے برتن سے، اور وہ مگہ (تقریباً دس چھٹانک) کے برابر ہے، آپ نے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر کلی کی، ناک جھاڑا، اور تین بار چہرہ دھویا، پھر تین تین بار ہاتھ دھوئے، پھر دو بار سر کا مسح کیا، کانوں کی اندرونی اور بیرونی جانب سے مسح کیا، پھر تین تین بار پاؤں دھوئے، پھر فرمایا: ابن عباس رضی اللہ عنہما میرے ہاں آئے تو انہوں نے اس حدیث کے متعلق مجھ سے پوچھا:، تو میں نے انہیں بتایا، تو انہوں نے فرمایا: لوگ صرف غسل (دھونے) ہی کو مانتے ہیں، جبکہ ہم اللہ کی کتاب میں مسح کرنا پاتے ہیں، یعنی پاؤں پر۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الطهارة /حدیث: 102]
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الوضوء، باب الوضوء ثلاثا ثلاثا، رقم: 159 . مسلم، كتاب الطهارة، باب صفة الوضوء وكماله، رقم: 226 . سنن ابوداود، رقم: 106 . سنن ترمذي، رقم: 28»

مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 102 کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 102  
فوائد:
(1) مذکورہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مد کے برابر پانی سے وضوء کیا۔ مد ایک پیمانہ ہے جو کم وبیش دو رطل کے برابر اور جدید وزن کے مطابق تقریباً 6 سو گرام بنتا ہے۔ اتنے کم پانی سے وضوء کرنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد امت کو پانی کے ضیاع سے اجتناب کی ترغیب دلانا تھا۔
(2).... مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا سر کے علاوہ بقیہ اعضاء تین تین مرتبہ دھونے مستحب ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: ((تَوَضَّأَ رَسُوْلُ اللّٰهِ مَرَّةً مَرَّةً)) (بخاري، رقم: 157۔ سنن ابي داود، رقم: 138).... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک مرتبہ (اعضاء دھو کر) وضو کیا۔
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ((اِنَّ النَّبِیَّ صلی الله علیه وسلم تَوَضَّأَ مَرَّتَیْنِ مَرَّتَیْنِ)) (بخاري، کتاب الوضوء، رقم: 158۔ سنن ترمذي، رقم: 32).... نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دو مرتبہ وضوء کیا۔
مذکورہ بالاحدیث میں تین تین کا تذکرہ ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ایک ایک مرتبہ دھونا، فرض جبکہ تین تین مرتبہ اعضائے وضوء کو دھونا بالاجماع سنت ہے۔ (شرح مسلم للنووي: 2؍ 108)
لیکن تین سے زیادہ کرنا جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ سیدنا عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ روایت ہے: ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر سوال کرنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تین تین مرتبہ (وضوء کر کے) دکھایا اور فرمایا: یہ وضو ہے اور جس نے اس پر زیادتی کی تو بے شک اس نے برا کیا، حد سے تجاوز کیا اور ظلم کیا۔ (سنن ابي داود، رقم: 135)
مذکورہ حدیث کے آخر میں جو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ پاؤں پر مسح کرنا۔ یہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ بلکہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیہاتی سے ارشاد فرمایا: اس طرح وضو کرو جیسے اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضوء کا طریقہ بتلایا اور اس میں ہے کہ پاؤں بھی دھوئے۔ (صحیح ابن ماجة، رقم: 539)
جمہور کا موقف یہی ہے کہ پاؤں دھونا واجب ہیں۔ (نیل الاوطار: 1؍ 261)
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 102