الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب النكاح
نکاح کے مسائل کا بیان
13. باب الرضاع
13. دودھ پلانے کا بیان
حدیث نمبر: 964
عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏لا تحرم المصة والمصتان» ‏‏‏‏ أخرجه مسلم.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک دو دفعہ دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب النكاح/حدیث: 964]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الرضاع، باب في المصة والمصتان، حديث:1450.»

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 964 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 964  
تخریج:
«أخرجه مسلم، الرضاع، باب في المصة والمصتان، حديث:1450.»
تشریح:
رضاعت کا حکم کتنا دودھ پینے سے ثابت ہوتا ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔
جمہور کا قول ہے کہ دودھ تھوڑا یا زیادہ پینے سے‘ ہر دو صورت میں رضاعت کا حکم ثابت ہو جاتا ہے۔
امام داود ظاہری‘ (ایک قول کے مطابق) امام احمد‘ امام اسحٰق اور ابوعبیدہ رحمہم اللہ وغیرہم نے اس حدیث کے مفہوم کے مطابق کہا ہے کہ رضاعت کا حکم تین مرتبہ پینے سے ثابت ہوتا ہے، دو دفعہ پینے سے نہیں۔
اور امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ پانچ مرتبہ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے منطوق سے استدلال کیا ہے جو کہ آئندہ آ رہی ہے اور ظاہر ہے کہ منطوق مفہوم سے زیادہ قوی ہوتا ہے‘ نیزعرف عام میں لوگوں میں مروج ہے کہ جب وہ یہ بولتے ہیں کہ فلاں کام ایک یا دو سے ثابت نہیں ہوتا تو اس کا یہ مفہوم نہیں ہوتا کہ تین مرتبہ سے ثابت ہو جائے گا بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اس سے مراد مطلق تعداد و کثرت ہے۔
رہا جمہور کا مذہب کہ رضاعت کا حکم قلیل و کثیر دونوں سے ثابت ہو جاتا ہے تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَاُمَّھَاتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ ﴾ (النسآء۴:۲۳) سے استدلال کیا ہے‘ حالانکہ اس میں ان کے لیے کوئی دلیل نہیں۔
بلکہ ماں کا لفظ اس کا تقاضا کر رہا ہے کہ دودھ پلانے والی کی حرمت اس وقت ثابت ہوتی ہے جب اس نے اتنی مقدار میں دودھ پلایا ہو جس سے وہ ماں کہلانے کی مستحق بن جائے۔
اس وصف سے متصف وہی ہو سکتی ہے جس نے بچہ جنم دیا ہو یا جس کے بدن کا جز (دودھ) بچے کے بدن کا جز بن گیا ہو، اوریہ محض رضاعت سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کے ثبوت کے لیے اتنی مقدار ناگزیر ہے جس سے دودھ بچے کا جزو بدن بن جائے‘ اور یہ معلوم نہیں کہ کتنی مقدار کا دودھ جزو بدن بن سکتا ہے‘ اس لیے شارع علیہ السلام نے جو مقدار مقرر کی ہے اس کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔
بنابریں گہری اور عمیق نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رضاعت کے سلسلے کی تمام احادیث اسی علت و سبب کے گرد گردش کرتی ہیں‘ لہٰذا اس کے لیے بھوک کی شرط‘ آنتوں کو کھولنے کی شرط‘ ہڈیوں کی نشوونما کی شرط‘ گوشت بڑھانے‘پیدا کرنے کی شرط اور اس رضاعت کے دو سال کے دوران میں ہونے کی شرط یہ تمام اسی علت و سبب کی وجہ سے ہیں‘ لہٰذا واضح ہو گیا کہ آیت قرآنی جمہور کے مذہب کی تائید نہیں کرتی بلکہ اس مسلک کی تائید کرتی ہے جسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے، اور حدیث اور آیت قرآن میں باہم تعارض بھی نہیں ہے بلکہ دونوں میں کلی توافق اور مطابقت ہے۔
اگر مطلق رضاعت ہی مراد ہوتی تو پھر فرمان الٰہی یوں ہوتا: «اَلنِّسَائُ الّٰتِيْٓ أَرْضَعْنَکُمْ» وہ عورتیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 964